قومی انتخابات سے قبل کچھ ریٹرننگ افسران ایسی دستاویزات کو ظاہر کرنے کی درخواستوں کو مسترد کر رہے ہیں جن میں نامور سیاستدانوں کے اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات موجود ہیں جو کہ انتخابی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
گزشتہ ہفتے سے جیو الیکشن سیل اور جیو فیکٹ چیک 8 فروری کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل سیاستدانوں کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی اور فارم B حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کی کوششوں کو متعدد ریٹرننگ افسران (ROs) نے مسترد کر دیا ہے۔
جیو ٹیلی ویژن کے دونوں شعبوں نے مریم نواز شریف کے این اے 119 (لاہور)، شہباز شریف کے این اے 123 (لاہور)، فضل الرحمان کے این اے 44 (ڈیرہ اسماعیل خان)، شاہ زین بگٹی کے این اے 253 (ڈیرہ بگٹی) اور این اے 207 (نواب شاہ) کے لیے آصف علی زرداری کے کاغذات نامزدگی کی کاپیاں حاصل کرنے کے لیے درخواستیں بھیجنے کے ساتھ ساتھ متعدد کوششیں بھی کی ہیں۔
فارم B امیدوار، اس کے شریک حیات اور زیر کفالت بچوں کے اثاثوں اور واجبات سے متعلق ہے۔
الیکشن ایکٹ 2017 کا سیکشن 138 فارم B کی اشاعت کا مطالبہ کرتا ہے۔
اس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مزید ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تمام امیدواروں کے اثاثوں اور واجبات کے گوشواروں کو سرکاری گزٹ میں شائع کرے اور ساتھ ہی یہ معلومات ”کسی بھی شخص“ کو فراہم کرے جو ایک مقررہ فیس کی ادائیگی پر کاپی چاہتا ہے۔
اس کے بعد 13 جنوری کو جیو فیکٹ چیک کی ٹیم لاہور میں مریم نواز شریف کے فارم B کے لیے این اے 119 کے ریٹرننگ افسر (آر او) منیر حسین چوپڑا کے پاس پہنچی۔
منیر چوپڑا نے جیو فیکٹ چیک کی ٹیم کے ساتھ دستاویزات شیئر کرنے کا وعدہ کیا لیکن کئی یاد دہانیاں بھیجے جانے کے باوجود آج (17 جنوری) تک کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
جب جیو الیکشن سیل نے ڈیرہ اسماعیل خان میں آر او کے دفتر کا دورہ کیا اور این اے 44 سے الیکشن لڑنے والے مولانا فضل الرحمان کے کاغذات نامزدگی بشمول فارم B کی کاپی مانگی تو ریٹرننگ آفیسر نےرپورٹر کو بتایا کہ وہ دستاویزات فراہم نہیں کریں گے۔ انہوں نے دعویٰ کرتے ہوئےکہا کہ اس میں سیاسی رہنما کی ”حساس اور ذاتی “ معلومات ہیں۔
اس کے بعد جیو الیکشن سیل نے شاہ زین بگٹی کی جانب سے بلوچستان کے ڈیرہ بگٹی میں این اے 253 کے لیے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ریٹرننگ آفیسر نے رپورٹر کو کاغذات دینے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ صرف حلقے کے”ووٹر“ کو ہی یہ دستاویزات فراہم کی جا سکتی ہیں۔
آر او کا دعویٰ قانون کے خلاف ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ”کوئی بھی شخص“ دستاویزات حاصل کر سکتا ہے۔
تاہم جیو الیکشن سیل این اے 127 (لاہور) سے بلاول بھٹو زرداری کے کاغذات نامزدگی کی کاپی حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
جیو فیکٹ چیک نے ریٹرننگ افسران کی جانب سے اس انکار کے بارے میں الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا۔ نائب ترجمان حامد رضا خان نے دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ابھی بھی امیدواروں کے دستاویزات کی”پروسیسنگ“ اور انہیں مرتب کر رہا ہے، ان دستاویزات کو بعد کی تاریخ میں فراہم کیا جائے گا۔
یہا ں ایک بار پھر ذکر کرنا ضروری ہے کہ قانون کسی بھی شخص کو کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال مکمل ہونے کے بعد ان دستاویزات تک رسائی کی اجازت دیتا ہے۔
اس کے علاوہ 2018 کے قومی انتخابات سے پہلے یہ دستاویزات کمیشن کی ویب سائٹ پر عام کردی گئی تھیں۔