اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کا پی ٹی آئی کے اجتماعی استعفے منظور کرنے سے انکار

اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے تحریک انصاف کے استعفوں کی اجتماعی منظوری سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ایک کرکے پیش ہوں تصدیق کریں تو استعفے منظور ہوجائیں گے۔

قومی اسمبلی سے استعفوں کی منظوری حوالے سے پی ٹی آئی کا وفد اسپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات کے لیے چیمبرپہنچا۔ وفد میں اسد قیصر، قاسم سوری، عامرڈوگر اور امجد خان شامل تھے۔

پی ٹی آئی وفد نے اسپیکر قومی اسمبلی سے استعفوں کی منظوری کا مطالبہ دہراتے ہوئے مؤقف پیش کیا کہ پارٹی کا فیصلہ ہے کہ تمام ارکان نے استعفے دیئے ہیں، ہمارے استعفے منظور کیے جائیں۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے وفد نے مؤقف پیش کیا کہ ہم اجتماعی استعفی دیئے تاکہ عام انتخابات کی راہ ہموار ہو، کسی کی تفریح کیلئے استعفی نہیں دے کہ ایک ایک کرکے بلایا جائے۔

وفد نے کہا کہ پہلے بھی 11 استعفے غیر آئینی طریقے سے مںظور کئے گئے، سپریم کورٹ استعفی کی منظوری کا طریقہ کار واضح کر چکی ہے، سارے استعفی سابق ڈپٹی اسپیکر منظور کر چکے ہیں، اب استعفوں کی تصدیق کا نہیں الیکشن کمیشن کو بھیجنے کا عمل ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کا وفد سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سیاست میں دروازے بند نہیں کئے جاتے، رابطے ہونے چاہئیں۔

راجا پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ استعفوں کی منظوری کا فیصلہ آئین اور اسمبلی قواعد کے مطابق کیا جائے گا، استعفوں کے لئے تمام ممبران کو انفرادی طور پر بلایا جائے گا۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ پہلے بھی پی ٹی آئی ممبران کو تصدیق کے لئے مدعو کیا تھا، پی ٹی آئی کا ایک رکن استعفے کی منظوری روکنے کیلئے ہائی کورٹ چلا گیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے استعفوں کی اجتماعی منظوری سے صاف انکار کرتے ہوئے جواب دیا کہ ایک ایک کرکے پیش ہوں تصدیق کریں تو استعفے منظور ہوجائیں گے۔

اس سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کا کہنا تھا کہ اب تو آڈیو لیکس بھی آگئی کہ کس طرح استعفی منظور کرنے ہیں، اب ہم دوبارہ ملنے جارہے ہیں کہ استعفی منظور کئے جائیں۔

قاسم سوری کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے کہا کہ اڈیو لیکس کی تحقیقات کرائیں، انھیں معلوم ہے اڈیو کس طرح لیکس ہوتی اور کون کراتا ہے۔

سابق ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ ہم استعفے دے چکے ہیں، میں نے خود منظور بھی کئے ہیں، اور میں اپنا استعفی بھی دے چکا ہوں، نہ جانے کیوں یہ حکومت الیکشن میں جانے سے ڈرتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں