نیب اور اس کے قانون نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، عدالت

اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) اور اس کے قانون نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اختیارات اور پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک سیاسی ورکر نے پبلک آفس ہولڈر کے خلاف تقریر کی اور 6 ماہ جیل میں رہا۔ قانون پبلک آفس ہولڈرز کے تحفظ اور آزادی اظہار کو دبانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرڈیننس کے ذریعے ایکٹ کو مزید ڈریکونین بنا دیا گیا ہے۔ واحد سوال یہ ہے کہ سیکشن 20 کو کیوں نہ کالعدم قرار دیا جائے؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ اسے غیر آئینی قرار دے اور میرے خیال سے یہ غیر آئینی نہیں تاہم قانون کے غلط استعمال کو دیکھنا ہے کہ اس کے کچھ سیف گارڈز ہونے چاہئیں۔ میرے ذہن میں ایک منصوبہ ہے اور وزیر اعظم سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر حکومت کو پرائیویٹ لوگوں کی ہتک کا اتنا خیال ہے تو پبلک آفس ہولڈرز کو نکال دے۔ مجھے چیف جسٹس ہوتے ہوئے تنقید سے نہیں گھبرانا چاہیے اور ہر پبلک آفس ہولڈر کی ساکھ اس کے فیصلوں اور اس کے اعمال سے ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ عدالت کافی عرصے سے اس معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں اور رہنما سوشل میڈیا پر ہونے والے اقدامات کے خود ذمہ دار ہیں اور جب آپ خود یہ چاہتے ہیں تو پھر تنقید سے کیوں ڈرتے ہیں۔ پوری دنیا میں طے ہے کہ آزادی اظہار پر کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔ اداروں کے بنیادی حقوق یا ساکھ نہیں ہوتی تو وہ ہتک عزت میں کیسے آ سکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 14 ہزار کیسز زیرالتوا ہونے کے باوجود مخصوص کیسز میں کارروائی مشکوک ہو جاتی ہے۔ کسی کو ریپسٹ یا پیڈوفائل کہنا کہاں کا آزادی اظہار ہے۔ اگر کوئی کسی پردہ نشین خاتون کو کہے کہ وہ جادو ٹونے کرتی ہے تو کیا یہ آزادی اظہارِ رائے ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بیرون ممالک میں طنزیہ جملے کہے جاتے ہیں۔ اداروں نے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنا رکھے ہیں اور اداروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کیوں ہونے چاہئیں۔ پھر آپ اسی سوشل میڈیا کے خلاف قانون لے آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہی سیاسی جماعتیں اپنی سوشل میڈیا ٹیمز سے یہ سب کراتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا پر الزام کیوں لگایا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں صرف جماعت اسلامی اس کا حصہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جس طرح لاہور سے دو صحافیوں کو اٹھایا گیا اور اس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ پھر آپ بیان حلفی دیں کہ ان آرڈیننسز کے تحت کارروائیاں نہیں کی جائیں گی۔ اس آرڈیننس میں پبلک باڈیز کی ساکھ بھی بچانے کی کوشش کی گئی ہے اور آپ آپ نے تو نیچرل پرسن کی تعریف کو بھی آرڈیننس میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس عدالت کو عوام کے اعتماد کی پرواہ ہے اور تنقید کی کوئی پرواہ نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ کسی نے تنقید کی تو وہ فوری گرفتار ہو جائے گا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت نہیں چاہے گی کہ غلط تنقید پر بھی کسی کو جیل بھیج دیا جائے۔ میں نیب کیسز میں سب سے زیادہ کہتا تھا کہ گرفتاری نہیں ہونی چاہیے لیکن جتنا نقصان نیب اور اس کے قانون نے پہنچایا ہے اس کی تو کوئی مثال نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں