حلقہ بندیوں میں تاخیر، الیکشن کمیشن نے حکومت کو ذمے دار قرار دے دیا

اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بدھ کے روز آخرکار حلقہ بندیوں کے تنازع پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے تاخیر کی ذمہ داری پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت پر ڈال دی ہے۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق دریں اثنا صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے کہا ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 224(2) کے تحت عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخیں تجویز کرے۔

یہ پیشرفت قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد، صدر عارف علوی کی جانب سے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کو تحلیل اور الیکشن کمیشن کے سینئر عہدیدار کے اس بیان کے بعد سامنے آئی ہے کہ قانونی اور آپریشنل پیچیدگیوں اور رکاوٹوں کی وجہ سے تین ماہ کے اندر عام انتخابات ممکن نہیں ہیں۔

سپریم کورٹ اس وقت ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کی قانونی حیثیت اور اس کے بعد وزیر اعظم اور صدر کے اقدامات اور احکامات پر فیصلہ سنانے کے لیے معاملے کی سماعت کر رہی ہے۔

صدر کے سیکریٹریٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 48(5)(اے) اور آرٹیکل 224(2) کے تحت صدر کو اسمبلی تحلیل کی تاریخ سے 90 دن کے اندر عام انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک تاریخ طے کرنی ہوتی ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے آئین کے مینڈیٹ کو انجام دینے کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57(1) کے تحت الیکشن کمیشن سے مشاورت کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اپنی قانونی اور آئینی ذمہ داریوں کے لیے متحرک ہے اور قانون اور آئین کے مطابق عام انتخابات کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

کابینہ کے سابق اراکین شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری، فواد چوہدری اور فرخ حبیب کی جانب سے شدید تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے الیکشن کمیشن نے کہا کہ کمیشن اپنی تمام آئینی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ جہاں وہ اپنے قانونی فرائض کی ادائیگی کے لیے پرعزم ہے، وہیں دوسرے اداروں اور شخصیات کو بھی اپنی قانونی اور آئینی ذمہ داریوں کو بروقت پورا کرنا چاہیے۔

اس میں نشاندہی کی گئی کہ سابقہ ​​وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے انضمام اور قبائلی علاقوں کی نشستیں 12 سے کم کر کے 6 کرنے کے بعد قومی اسمبلی کے حلقوں کی تعداد 272 سے کم ہو کر 266 رہ گئی ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ اس نے نئی حد بندی کی ضمانت دی تھی جو مردم شماری کے سرکاری نتائج کی عدم موجودگی میں ممکن نہیں تھی، چیف الیکشن کمشنر نے 7 مئی 2020 کو عمران خان کو خط لکھا تھا جس میں ان کی توجہ اس معاملے کی طرف مبذول کروائی گئی تھی اور سرکاری نتائج کی اطلاع کے لیے ان سے مداخلت کی درخواست کی تھی۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ دیگر متعلقہ حلقوں بشمول وزارت پارلیمانی امور کے ساتھ ساتھ سینیٹ، قومی اسمبلی اور ادارہ شماریات کے سیکریٹریوں کو بھی خطوط لکھے گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مزید کہا کہ ان تمام اداروں کو یاد دہانی بھی کرائی گئی تھی جس میں نشاندہی کی گئی تھی کہ حلقہ بندیوں کی حد بندی کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے لیکن یہ اس وقت تک پیشرفت نہیں کر سکتے جب تک مردم شماری کے حتمی نتائج کے حوالے سے باضابطہ طور پر مطلع نہیں کیا جاتا۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ حد بندی کا عمل بالآخر اس وقت شروع ہوا جب 7 مئی 2021 کو سرکاری مردم شماری کے نتائج سے آگاہ کیا گیا لیکن حکومت کے اعلان کے بعد اسے روک دیا گیا تھا کہ وہ نئی ڈیجیٹل مردم شماری کرے گی، کمیشن نے مردم شماری کے لیے حکومت کو 30 دسمبر 2021 اور 21 جنوری 2022 کو خطوط بھی لکھے تھے جس میں ان پر مردم شماری کے عمل کو تیز کرنے پر زور دیا گیا تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو بھی مشورہ دیا کہ وہ ان پر غیر ضروری الزامات لگانے سے گریز کریں۔

دریں اثنا الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ جس خط میں کمیشن سے انتخابات کی تاریخیں تجویز کرنے کا کہا گیا تھا، اس کا جواب سپریم کورٹ کے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کی قانونی حیثیت اور اس کے بعد کی کارروائی کے بعد دیا جائے گا۔

کمیشن نے اس بات پر زور دیا کہ پولنگ کی تاریخ طے کرتے وقت زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا ہو گا اور نشاندہی کی کہ الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 17(1) کے تحت الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے ہر صوبائی اسمبلی اور مقامی حکومتوں کے آئین، ایکٹ، قواعد و ضوابط اور قابل اطلاق لوکل گورنمنٹ قانون کی دفعات کے مطابق علاقائی حلقوں کی حد بندی کرنے کا ذمہ دار تھا۔

ایکٹ کے سیکشن 17(2) میں لکھا ہے کہ کمیشن ہر مردم شماری کو باضابطہ طور پر شائع کرنے کے بعد حلقوں کی حد بندی کرے گا۔

انہوں نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 21 کا بھی حوالہ دیا جس میں لکھا ہے،

(1) حلقوں کی حد بندی کے مقصد کے تحت کمیشن نمائندگی حاصل کر سکتا ہے اور ان پر غور کر سکتا ہے، پوچھ گچھ کر سکتا ہے، گواہوں کو طلب کر سکتا ہے اور شواہد ریکارڈ کر سکتا ہے، اور ایک ابتدائی رپورٹ اور حلقہ بندیوں کی فہرست تیار کر کے سرکاری گیزٹ میں شائع کرے گا جس میں ہر حلقے میں شامل کیے گئے علاقوں کی وضاحت کی جائے گی۔

(2) کمیشن اشاعت کی تاریخ سے 30 دنوں کے اندر ابتدائی رپورٹ کے سلسلے میں نمائندگیوں کو مدعو کرے گا۔

(3) کسی حلقے کا ووٹر، ذیلی دفعہ (2) میں بیان کردہ مدت کے اندر ابتدائی رپورٹ میں تجویز کردہ اس حلقے کی حد بندی کے سلسلے میں کمیشن کو نمائندگی دے سکتا ہے۔

(4) کمیشن اس کی طرف سے موصول ہونے والی نمائندگیوں کو سننے اور غور کرنے کے بعد ذیلی دفعہ (1) کے تحت شائع شدہ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست میں ایسی ترامیم، ردوبدل یا ترامیم کرے گا جو اسے مناسب یا ضروری سمجھے اور ذیلی دفعہ (2) کے تحت نمائندگی کرنے کے لیے مقرر کردہ آخری تاریخ سے 30 دنوں کے اندر، سرکاری گیزٹ اور اس کی ویب سائٹ پر حتمی رپورٹ اور حلقوں کی فہرست شائع کرے گا جس میں ہر حلقے میں شامل علاقوں کو دکھایا جائے گا۔

ذرائع نے کہا کہ قانون میں فراہم کردہ ٹائم لائنز سے انحراف انتخابات کے معیار پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہو گا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ انتخابی عمل کی تکمیل کی حتمی تاریخ یکم جولائی ہو گی، عدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کے مطابق انتخابات کا مطلب ہے کہ نامزدگیوں کے لیے ناموں کی طلبی سے یہ عمل شروع ہو گا اور ریٹرن امیدواروں کے نوٹیفکیشن کے ساتھ یہ عمل اختتام پذیر ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ پولنگ کا دن جون کے دوسرے اور تیسرے ہفتے کے درمیان ہونا چاہیے جو کہ حد بندی کے لیے درکار وقت کو نچوڑ کر بھی ممکن نہیں ہو گا۔

ذرائع نے تاہم کہا کہ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے بھرپور سرگرم ہے اور اس نے پہلے ہی چاروں صوبائی الیکشن کمشنروں کو خطوط لکھے ہیں جس میں ان کی توجہ صدر کی جانب سے قومی اسمبلی کی تحلیل سے پیدا ہونے والی صورتحال کی جانب مبذول کرائی گئی ہے۔

اس نے کہا کہ آرٹیکل 224(4) کے تحت یہ الیکشن کمیشن کی قانونی ذمہ داری ہے کہ اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کر لے تو 60 دن کے اندر انتخابات کرائے اور اگر مدت کی تکمل سے قبل اگر اسمبلی تحلیل ہو جائے تو 90دن میں انتخابات کرانے ہوں گے۔

اسی سے ملتے جلتے خطوط میں لکھا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہ درخواست کی جاتی ہے کہ صوبائی حکومت سے فوری طور پر اپ ڈیٹ شدہ اور مستند نقشے حاصل کیے جائیں۔

صوبائی الیکشن کمشنرز سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ انتظامی یونٹس کی تصدیق شدہ فہرستیں حاصل کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں