پی ٹی آئی کے کارکنوں نے لاہور کے علاقے گلبرگ میں واقع ایک ہوٹل کا گھیراؤ کیا جہاں کل (بدھ) کو ہونے والے وزیراعلیٰ پنجاب کے اہم انتخاب سے قبل حکمران پی ٹی آئی کے ناراض اراکین اسمبلی کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے سینکڑوں ایم پی اے ٹھہرے ہوئے تھے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پلے کارڈ اور بینرز اٹھائےہوئے پی ٹی آئی کے کارکن ہوٹل میں اپنی پارٹی کے منحرف اراکین کے خلاف نعرے بازی کیا اور مطالبہ کیا کہ مسلم لیگ (ن) ان کے قانون سازوں کو رہا کرے، جن کی تعداد تقریباً 20 ہے۔
پی ٹی آئی پنجاب کے سیکریٹری اطلاعات مسرت جمشید چیمہ نے پارٹی کے کارکنان اور عہدیداران کو ہوٹل پہنچ کر ’پارٹی کے غداروں‘ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے کہا تھا۔
مشتعل کارکنان نے مزاحمتیں ہٹاتے ہوئے زبردستی ہوٹل میں داخل ہونےکی کوشش کی، اس دوران مسلم لیگ (ن) کے کچھ قانون ساز بھی ہوٹل کے کمروں سے باہر آئے اور عمران خان کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔
حالات ڈیڑھ گھنٹے تک کشیدہ رہے اور مین بلیوارڈ گلبرگ پر کئی گھنٹے تک ٹریفک کی روانی معطل رہی۔
ہوٹل کے اندر موجود مسلم لیگ (ن) کے کچھ ‘مشتعل’ قانون سازوں نے پنجاب حکومت کو تنبیہ کی کہ وہ حکمراں جماعت کے کارکنوں کو کنٹرول کریں ورنہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما بھی اپنے کارکنان کو ہوٹل پہنچنے کی کال دینے پر مجبور ہوں گے۔
قانون سازوں کی حفاظت کے لیے پولیس کی اضافی نفری ہوٹل کے باہر تعینات تھی۔
ایم پی اے عظمیٰ بخاری، سلمان رفیق اور راحیلہ خادم نے کہا کہ اپوزیشن پی ٹی آئی کو اس کے فاشسٹ ہتھکنڈوں پر سبق سکھا سکتی ہے لیکن وہ تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ’ہمارے کارکن صرف ایک کال کی دوری پر ہیں، پی ٹی آئی کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور انہیں کسی بھی تشدد میں ملوث نہیں ہونا چاہیے‘۔
تاہم بعد ازاں شام میں پولیس کی بھاری نفری نے پی ٹی آئی کارکنوں کو ہوٹل کے احاطے سے دور کر دیا اور ایک اور تصادم ختم ہوگیا۔
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز، جو وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے نامزد امیدوار بھی ہیں، نے دعویٰ کیا کہ جب پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اندر گھسنے کی کوشش کی تو تقریباً 200 ایم پی اے ہوٹل میں موجود تھے۔
ایم پی ایز کو معطل کرنے کا منصوبہ
گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں حمزہ شہباز نے دعویٰ کیا کہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بدھ کے روز وزیراعلیٰ کے انتخاب سے قبل 40 سے زائد اپوزیشن کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے منحرف قانون سازوں کو معطل کر سکتے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ پنجاب حکومت پنجاب اسمبلی کے دفاتر میں اپنے آدمیوں کے ذریعے توڑ پھوڑ کر کے اس کا الزام اپوزیشن پر تھوپنا چاہتی ہے۔
حمزہ شہباز نے الزام لگایا کہ 40 سے زائد ایم پی اے کو معطل کرنے کا منصوبہ ہے تاکہ انہیں وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں ووٹ ڈالنے سے روکا جا سکے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق کسی بھی قانون ساز کو اس کا ووٹ کاسٹ کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ پرویز الٰہی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ منصفانہ انداز میں مقابلہ کریں، اگر وہ ووٹس کے ذریعے جیت جاتے ہیں تو ہم ان کی جیت قبول کریں گے۔
حمزہ شہبازنے عمران خان کو کہا کہ وہ غیر آئینی عمل کر کے پاکستان کو اپنی ملکیت نہ سمجھیں۔
دریں اثنا، پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری نے مسلم لیگ (ن) کے رانا مشہود کی سربراہی میں اپوزیشن ایم پی اے کی جانب سے مبینہ طور پر اسمبلی کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے ہے۔
اسمبلی آفس کے مطابق اپوزیشن کے قانون سازوں نے احتجاج کے دوران اسمبلی کے فرنیچر، تصاویر اور سیکیورٹی کے آلات کو نقصان پہنچایا، اس سلسلے میں کمیٹی کو ذمہ داران کا تعین کرنے کا کام بھی سونپا گیا ہے۔