پنجاب پر کس کا راج؟ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف درخواست پر آج پھر سماعت

اسلام آباد: (آئی این این) پنجاب پر کس کا راج؟ ہر نظر سپریم کورٹ پر، ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف پرویزالٰہی کی درخواست کی آج پھر سماعت ہوگی۔

گزشتہ روزسپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ پر حکومتی اتحادیوں کی فل کورٹ بنچ بنانے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

دن بھر دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر ڈپٹی سپیکر کے رولنگ کیخلاف فل کورٹ بنانے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا۔

سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وکلاء نے فل کورٹ بنانے اور میرٹ پر دلال دیئے، معاملے کی بنیادی قانونی سوال ہے، ارکان کو ہدایت پارٹی سربراہ دے سکتا ہے یا نہیں، وکلاء کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کرتے ہیں، سماعت کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کی جاتی ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ وکلاء کو موقع دیتے ہیں کل عدالت کو مطمئن کریں۔ عدالت کے سامنے سوال آرٹیکل 63 اے کے تحت ہدایات کا ہے، معاملہ کی بنیاد قانونی سوال ہے ارکان اسمبلی کو ہدایت پارٹی سربراہ دے سکتا ہے یا نہیں، وکلاء نے اپنے دلائل کے حق میں عدالتی فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔ پرویز الہی کے وکیل نے کہا رولنگ آئین قانون کے بر خلاف ہے۔ فل کورٹ تشکیل نہ دینے کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

اس سے قبل سپریم کورٹ نے حکومتی اتحادیوں اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کو مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ موجودہ تین رکنی بنچ ہی سماعت کرے گا۔ کیس کو میرٹ پر سنیں گے، ہم نے معاملہ کا جائزہ لیا ہے، چودھری شجاعت اور پیپلز پارٹی کے فریق بننے کی درخواستیں منظور کرتے ہیں۔ آگے چل کر دیکھیں گے فل کورٹ بنچ کا کیا کرنا ہے۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے یہ ہی احکامات ہیں، معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے۔ میں نے استدعا کی فل کورٹ بنچ بنانے سے عدالتی تکریم میں اضافہ ہو گا۔ اگر نظر ثانی منظور ہوئی تو بات پہلے والی صورتحال پر چلی جائے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آئین کو دیکھنا ہے۔ آرٹیکل 63 اے کا طویل سفر ہے، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے وزیر اعظم کو گھر بھیجا، آپ نے پہلے کبھی بنچ پر اعتراض نہیں کیا۔ اس پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم معذرت کرتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ معذرت نہیں کرتے آپ مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ اس عدالت نے ضمیر کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے، اگر یہ معاملہ تجاوز کا ہوا تو ممکن ہے فل کورٹ میں جائے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ووٹ کے نہ گننے کی تشریح درست نہیں کے نتیجے پر رن اف الیکشن ہی ختم ہوجائے گا، 12 کروڑ کے وزیراعلیٰ کا مسئلہ ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ قانونی سوال پر آپ تیاری کرلیں۔ اس پر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے وکیل نے کہا کہ اگر آپ نے سننا ہے تو سب کو موقع دیں، میں نے تحریری جواب تیار کیا ہے، اتنا وقت تو دیں مقدمہ کہ تیاری کر سکیں۔

اس پرچیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ فل کورٹ پر ہم نے سوچا ہے، فل کورٹ پیچیدہ کیسز میں بنائے جاتے ہیں، یہ پیچیدہ کیس نہیں ہے، آرٹیکل 63 اے پر ہمارا فیصلہ آ چکا ہے، ہم نے 2015ء کے فیصلے کا مطالعہ کیا ہے، اگر آپ تیار نہیں تو منصور اعوان سے سوال کر لیتے ہیں۔ ملک میں گورننس بہت بڑا ایشو ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ابھی ہم مزید فریقین کو سننا چاہتے ہیں، آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ کے کہنے پر ابھی فل کورٹ بنا دیں۔ آپ شاید چاہتے ہیں آپ کے کہنے پر فل کورٹ بنا دیں تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں، میرٹ پر دلائل سن کر فیصلہ کریں گے فل کورٹ بنانی ہے یا نہیں۔

اسی دوران عرفان قادر نے کہا کہ مجھے اپنے موکل سے ہدایات لینے کا وقت دیا جائے۔ میرٹ پر دلائل دینے کے لیے وقت درکار ہوگا، ہمارے تمام دلائل فل کورٹ سے متعلق ہیں۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ اس سوال کا جواب دے چکے ہیں پارٹی سربراہ ہدایات دے سکتا ہے، کیس میں لمبا کرنے کی کوئی بات نہیں ہے، عدم اعتماد والے کیس میں عدالت نے سوموٹو لیا تھا، موجودہ کیس میں کوئی سوموٹو نہیں لیا، آپ کے ہر لفظ کو سنا جائے گا، ہم نے وکیل منصور عثمان کو تفصیلی سنا ہے، لمبے سفر کے بعد 63 اے بنی ہے، استدعا ہے فل کورٹ سے عدالت کی توقیر میں اضافہ ہوگا، وزیراعظم کو گھر بھیجنے کے فیصلے پر اپ نے مٹھائیاں بانٹی۔

یاد رہے کہ 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے سلسلے میں ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ (ق) کے اراکین کی جانب سے پرویز الہٰی کے حق میں ڈالے گئے 10 ووٹس مسترد کردیے تھے۔

انہوں نے رولنگ دی تھی کہ مذکورہ ووٹس پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈالے گئے، جس کے نتیجے میں حمزہ شہباز ایک مرتبہ پھر وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے تھے۔

پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں غیر متوقع موڑ آنے کے بعد سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری آدھی رات کو مسلم لیگ (ق) کی درخواست وصول کرنے کے لیے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی ہدایت پر کھول دیے گئے تھے۔

جس کے بعد پرویز الہٰی نے مسلم لیگ (ق) کے وکیل عامر سعید راں کے توسط سے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔

مذکورہ درخواست پر 23 جولائی کو سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے سماعت کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو پیر تک بطور ٹرسٹی وزیر اعلیٰ کام کرنے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے، تاہم عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد جاری حکم نامے میں کہا تھا کہ حمزہ شہباز آئین اور قانون کے مطابق کام کریں گے اور بطور وزیر اعلیٰ وہ اختیارات استعمال نہیں کریں گے، جس سے انہیں سیاسی فائدہ ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں