وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ پانی کی قلت پر میں وزیر اعظم شہباز شیرف کے سامنے یہ بات لازمی رکھوں گا کہ صوبوں کے درمیان وفاق کا ادارہ ’ارسا‘ تفریق پیدا کر رہا ہے اور یہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ادارے کو سنبھالے۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم وفاق سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ اپریل میں 22 فیصد پانی کی قلت ہوگی تو ہم نے اس حساب سے اپنی حکمت عملی تشکیل دی، مگر مئی کی شروعات میں پانی کی قلت 51 فیصد ہوگئی۔
پانی کی قلت پر مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے انڈس سسٹم ریور اتھارٹی (ارسا) کے سامنے یہ اعتراض رکھا ہے کہ خریف کے موسم میں پانی ذخیرہ نہ کیا جائے اور کسی صورت قلت پیدا نہیں کی جائے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ پانی کی قلت پر عوام کو کچھ تعاون کرنا ہوگا تاکہ ہم منصفانہ بنیادوں پر پانی تقسیم کریں اور محکمہ آب پاشی کو بھی ہدایات دی گئی ہیں کہ پانی کے معاملے میں اگر کوئی افسر کسی غلط عمل میں ملوث ہے تو اس کو بھی سزا دی جائے۔
’صوبے میں کسی صورت دہشت گردی کے متحمل نہیں ہیں‘
انہوں نے کہا کہ کل میں وزیر خارجہ اور پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ دبئی گیا تھا اور وہاں رات قیام کا ارادہ تھا مگر جیسے ہی مجھے کراچی میں بم دھماکے کا پتا چلا تو میں اسی وقت وہاں سے نکل آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں ایک مہینے میں دہشت گردی کے 3 واقعات ہوئے ہیں مگر دہشت گردی کے واقعات کچھ عرصے سے پورے ملک میں ہو رہے ہیں۔
مراد علی شاہ نے پولیس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جنوری سے 15 مئی تک پورے ملک میں دہشت گردی کے 219 واقعات ہوئے ہیں، 104 خیبر پختونخوا میں ہوئے جن میں 104 افراد شہید ہوئے، بلوچستان میں 104 واقعات ہوئے جن میں 101 افراد شہید اور 123 زخمی ہوئے، اسی طرح سندھ میں اس عرصے کے دوران دہشت گردی کے 11 واقعات پیش آئے جس میں 7 افراد شہید اور 25 زخمی ہوئے، جبکہ پنجاب میں دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا جس میں 3 افراد شہید اور 32 زخمی ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں نسبتاً کم واقعات ہوئے ہیں مگر کسی ایک شخص کا بھی قتل ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔
افغانستان کی حکومت کا تختہ الٹنے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے اس وقت کے وزیر داخلہ کو خطوط لکھے تھے کہ ہمیں کچھ معاملات پر خدشات ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ چینی باشندوں پر حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی جبکہ چند روز قبل صدر میں ہونے والے دھماکے کہ ذمہ داری سندھودیش ریولیوشنری آرمی نے قبول کی تھی، مگر گزشتہ رات ہونے والے بم دھماکے کی واضح طور پر کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی نہ کوئی زبان ہے، نہ مذہب اور نہ کوئی قوم، بلکہ یہ وحشی لوگ ہیں جو ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور ان کی مالی معاونت بھی ہمارے دشمن ممالک کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ان معاملات پر تفصیلی ملاقات کی ہے اور انٹیلی جنس کی ناکامیوں پر بھی بات ہوئے ہے کہ وہ فی الفور دہشت گردی کے حملوں کو روک نہیں سکی۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ پورے ملک میں دہشت گردی کے واقعات پر قابو پائیں، ہم کسی بھی صورت اپنے صوبے کو ماضی کی طرح دہشت گردی میں لے جانے کے متحمل نہیں ہیں، ہم دہشت گردی کو روکنے کے لیے ہر قدم اٹھائیں گے جس میں کچھ لوگوں کو تکلیف بھی آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ایسے دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں تو وہاں کی پولیس اس علاقے کو شواہد اکٹھے کرنے لیے بند کر دیتی ہے، لیکن ہمارے یہاں لوگ کیمرا لے کر پہنچ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مرکزی خفیہ ایجنسی کو تمام شواہد اپنی تحویل میں لینے چاہئیں اور میں نے خفیہ اداروں سے کہا ہے کہ کسی بھی عوامی مقام پر اس قسم کی معلومات سے مجھے بھی آگاہ نہ کریں۔
سندھ میں پرائمری اساتذہ کی بھرتیاں
سندھ میں پرائمری اساتذہ کے تقرر پر بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم نے منصفانہ بنیادوں پر میرٹ کو نظر میں رکھتے ہوئے حال ہی میں آئی بی اے ٹیسٹ میں بیٹھنے والے امیدواروں کو 55 مارکس سے کم کرکے 40 نمبروں پر کامیاب کرنے کی شرط رکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں 10 لاکھ 76 ہزار بچوں کو نہیں پڑھا سکتے تھے حالانکہ ہمارے پاس اساتذہ بھی تھے، اس لیے ہم نے موجودہ بھرتیاں میرٹ کی بنیاد پر کی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں نئے اساتذہ کی بھرتیوں کو یقینی بنانے اور بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے ہم نے مجموعی طور پر 40 مارکس پر کامیاب ہونے کی شرط منظور کرلی ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ تمام بچوں کو تعلیم کی فراہمی کے لیے ہمیں امیدواروں کی مارکس میں رعایت دینی ہوگی اس لیے ہم نے 136 میں سے 118 تحصیل میں مارکس کم رکھنے کی حکمت عملی تشکیل دی ہے تاکہ نئے اساتذہ کو بھرتی کرکے بچوں کو تعلیم فراہم کی جائے۔