مرکز میں سیاسی منظر نامے میں سنجیدہ پیش رفت کی روشنی میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کا امکان مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس معاملے سے متعلق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کوئی ہدایت موصول نہیں ہوئیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ کو صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالے سے گورنر کو تجویز دینے کا آئینی اختیار حاصل ہے۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کر کے واپس آئے ہیں، وزیر اعظم نے اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالے سے انہیں کوئی ہدایت نہیں دی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آئینی اسکیم کے تحت میں وہ واحد شخص ہوں جو گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دے سکتا ہوں، لیکن فی الحال ایسا کچھ نہیں ہے‘۔
انہوں نے دہرایا کہ ’ اب تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے‘۔
وزیراعظم کی تجویز پر صدر پاکستان کی جانب سے قومی اسمبلی اچانک تحلیل کرنے اور سب سے بڑے صوبے میں سیاسی بحران کے درمیان پنجاب کے گورنر کی اچانک تبدیلی کے بعد صوبائی اسمبلیوں کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں عروج پر ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 112 (1) کے تحت صوبائی اسمبلیاں صرف صوبوں کے وزیر اعلیٰ کی تجویز پر ہی تحلیل ہوسکتی ہیں اس سے قبل صوبائی اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا جاسکتا، وزیر اعلیٰ کی تجویز کی معیاد 48 گھنٹے ہوتی ہے جس کے بعداسمبلی تحلیل ہوجانی چاہیے۔
وزیر اعلیٰ محمود خان کے خلاف فی الحال کوئی تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کی گئی تاہم خیبرپختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کو 145 میں سے 94 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر نجم الدین خان کے وزیر اعلیٰ کے خلاف جلد تحریک عدم اعتماد لانے کے حالیہ دعوے کے باوجودبھی ایسی کوئی بغاوت نظر نہیں آئی، پیپلز پارٹی کے رہنما کے مطابق انہیں پی ٹی آئی کے بہت سے ناراض ایم پی ایز کی حمایت حاصل تھی۔