وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی

بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے وزیر اعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایوان میں جمع کرا دی۔

میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد بی اے پی کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے ایوان میں جمع کروائی ہے، تحریک عدم اعتماد پر 14 اراکین بلوچستان اسمبلی کے دستخط ہیں۔

وزیر اعلی بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد صوبائی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرائے جانے کے موقع پر سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال اور ظہور بلیدی بھی موجود تھے۔

عمران خان نے بلوچستان کے عوام سے بہت زیادتی کی، یار محمد رند
تحریک عدم اعتماد ایوان میں جمع کرائے جانے کے بعد حکومتی اتحادی و رکن بلوچستان اسمبلی سردار یار محمدر ند کا کہنا تھا کہ اس وقت میں پارٹی کا پارلیمانی لیڈر ہوں، اگر عمران خان کا بیانیہ ٹھیک ہوتا تو میں ان کے معاون خصوصی کی حیثیت سے استعفیٰ کیوں دیتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عمران خان کے ساتھ جدوجہد کی، ان کی چھوٹی کونسلر لیول کی پارٹی کو پارلیمانی پارٹی بنایا مگر چیئرمین پی ٹی آئی نے بلوچستان اور اس کے عوام سے بہت زیادتی کی، انہوں نے بلوچستان کے لوگوں کو نمائش کے لیے رکھا مگر پارٹی کے دیرینہ کارکنوں کو بھول گئے اور ان کے چہیتے ٹائیگرز یہاں کے مرغے اور کٹے بھی کھا گئے۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم نے جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بات کی تھی، اس وقت جام کمال پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا تھا، ان کی ایمانداری پر کبھی سوال نہیں اٹھایا تھا، صوبے کے معاملات اور حقوق کے حوالے سے آواز اٹھائی تھی، آج جو بات ہماری زبان سے نکلے گی، ہم اس کو پورا کریں گے۔

سردار یار محمد رند کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت کا مزید چلنا مشکل نظر آرہا ہے، بلوچستان میں جلد اچھی اور مثبت خبروں کے ساتھ تبدیلی نظر آئے گی، بلوچستان میں انتظامیہ، کرپشن اور امن و امان کے حوالے سے صورتحال بہتر نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں جو سیاسی صورتحال ہے اس کے اثرات بلوچستان پر بھی پڑنے لگے ہیں، ہمیں بلوچستان کے عوام کی فکر ہونی چاہیے، بلوچستان میں امن و امان سمیت دیگر معاملات بہتر نہیں ہیں، جو بھی فیصلے کریں گے بلوچستان کے مفاد اور عوام کے بہتر مستقبل کے لیے کریں گے۔

بلوچستان کے ساتھ ہوئی زیادتی کو نظر انداز نہیں کرسکتے، جام کمال
سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارے اور بلوچستان کے لوگوں کے بہت سارے سیاسی معاملات پر حکومتی کارکردگی سے متعلق تحفظات تھے، ہمیں اس وزیر اعلیٰ سے اور اس حکومت سے امید تھی کہ معاملات بہتر ہوں گے، ہمیں کوئی شوق نہیں تھا کہ یہ حکومت ختم ہو، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، معاملات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی، اس وقت بھی ہم نے بار بار کہا تھا کہ بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے، اس پر اب مزید خاموشی بھی اختیار نہیں کر سکتے، کیونکہ ہماری خاموشی کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اس میں شریک ہیں جبکہ ہم اس بُری کارکردگی میں کسی طرح بھی ایک روز بھی شریک نہیں رہے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے دوران بھی رابطے میں آنے والی جماعتوں کے سامنے ہم نے صرف ایک ہی معاملہ رکھا کہ آپ تمام پارٹیوں نے بلوچستان کی بہتری کے لیے ہمارا ساتھ دینا ہے، یہی ہمارا ایجنڈا ہے۔

جام کمال نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے پی ڈی ایم مین شامل جماعتوں کے ساتھ معاہدے میں اس کے علاوہ کوئی مطالبہ نہیں رکھا، اب ہمیں امید ہے اس معاملے میں پی ڈی ایم میں شامل تمام دوست ہمارا ساتھ دیں گے، پھر مشترکہ طور پر مشاورت کے ساتھ نئے وزیر اعلیٰ سمیت دیگر معاملات پر بات اور فیصلے کیے جائیں گے۔

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے دنوں میں شہباز شریف، مولانا فضل الرحمٰن، آصف زرداری سمیت دیگر رہنماؤں سے ملاقات میں ہم نے اپنا یہی بیانیہ رکھا تھا تو ان تمام رہنماؤں کی جانب سے ہمیں یقین دہائی کرائی گئی تھی کہ اگر آپ صوبے میں تبدیلی چاہتے ہیں تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے اور اب ہم امید کرتے ہیں کہ ہم سے کیا گیا وعدہ وفا کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک بار پھر بلوچستان حکومت کی تبدیلی کوئی انوکھی اور نئی بات نہیں ہے، دنیا میں صوبائی اور مرکزی سطح پر تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ ملک اور صوبہ نقصان میں جارہا ہے اور ہم کہیں کہ حکومت ہر صورت میں اپنی مدت پوری کرے۔

انہوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ اسمبلی کو اپنی 5 سالہ مدت ضرور پوری کرنی چاییے، لیکن اس غیر سنجیدہ حکومت کو ہم مزید وقت نہیں دینا چاہتے کیونکہ یہ صوبے کے عوام کی ترقی، خوشحالی اور نوجوانوں کے حق کا معاملہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ پہلا قدم اٹھایا ہے، اس میں دوست ہمارے ساتھ ہیں، عبد القدوس بزنجو کے ساتھ اچھی طرز حکمرانی کے لیے ہمارے توقعات تھی مگر وہ توقعات پوری نہیں ہوئیں، حکومت کو جوابدہ ہونا چاہیے، حکومت کو پارٹی کو بھی اپنی کارکردگی کا حساب دینا چاہیے، جب میں نے محسوس کیا کہ پارٹی خرابی کی جانب جارہی ہے تو میں نے استعفیٰ دیا تھا، اب صوبے کی بہتری کے لیے پی ڈی ایم کی جماعتیں ہمارا ساتھ دیں گی۔

ملک کی بہتری کیلئے پی ٹی آئی کی حکومت سے جان چھڑائی، رہنما اے این پی
اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رکن بلوچستان اسمبلی کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں سیاست بات چیت کے دوران طے کیے گئے زبانی وعدوں پر چلتی ہے، کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوتا، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں سمیت دیگر پارٹیوں نے ملک کی بہتری کے لیے پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت سے جان چھڑائی، مگر اس موقع پر بھی بلوچستان حکومت نے پی ٹی آئی کی حکومت کا ساتھ دیا مگر بلوچستان عوامی پارٹی کے 5 میں سے 4 ارکان قومی اسمبلی نے پی ڈی ایم کا ساتھ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت طے کیا گیا تھا کہ اگر مرکز میں تبدیلی آتی ہے تو پھر صوبے میں بھی تبدیلی لائی جائے گی اور صوبے میں مثبت تبدیلی کے لیے ہم آپ کا ساتھ دیں گے، اب اس گناہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کا وقت آگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج صوبے میں بدترین طرز حکمرانی کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ آج بھی ڈیرہ بگٹی میں درجنوں کے حساب سے روز لوگ مر رہے ہیں مگر کوئی حکومتی نمائندہ اب تک علاقے کا دورہ کرنے نہیں گیا، پینے کا صاف پانی نہ ہونے سے لوگ مر رہے ہیں اور حکومتی مشینری سو رہی ہے۔

اے این پی رہنما کا کہنا تھا کہ اب وقت ہے کہ صوبے کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے تمام جماعتیں اس معاملے میں ہمارا ساتھ دیں۔

قائم مقام گورنر بلوچستان جان محمد جمالی نے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ٹی وی نیوز پر خبر دیکھی ہے، مجھے تحریک عدم اعتماد کے بارے میں کچھ علم نہیں، تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے قائم مقام گورنر کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں