سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خارجی امور کی چیئر پرسن شیری رحمٰن نے بھارت کی جانب سے نام نہاد غلطی سے پھینکے گئے میزائل پر سوالات اٹھادیے، میزائل حال ہی میں پاکستان میں گرا تھا۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گرنے والا بھارتی میزائل متعدد خطرات کی نشاندہی کرتا ہے اور اس سے نا قابل تصور نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے غور کیا ہے دونوں طاقتوں اور جوہری صلاحیت رکھنے والے ممالک کے درمیان کسی بھی قیمت پر دشمنی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنیا میں ایسی مثال کہی نہیں ملتی جہاں دو جوہری طاقتیں جو ایک دوسرے سے 4 جنگیں لڑ چکی ہیں اور براہِ راست پڑوسی بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس نام نہاد ’غلطی‘ کی وجہ ہماری ہنگامی تاریخ اور سخت گیری ہے جسے پاکستان اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ یہ ’تکنیکی خرابی‘ متنازع علاقےاسلام آباد سے 500 کلو میٹر دور میاں چنوں میں پیش نہیں آئی۔
انہوں نے واقعے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ امریکا اور چین کے بعد بھارت دنیا کی تیسرا بڑا فوجی طاقت رکھنے والا ملک ہے وہ ’معمول کی جانچ‘ میں ایسی غلطی کیسے کر سکتے ہیں۔
سینیٹر نے کہا کہ ’ہم نے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کو بھارت کی طرف سے پیغام دیا گیا ہے، ماضی کے واقعات کے تناظر میں بین الاقوامی برادری کی خاموشی مایوس کُن ہے۔
شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کے رویے کے سبب ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر پاکستان بھارت میں میزائل پھینکتا ہے تو کیا پاکستان کو بھی اسی طرح کا رد عمل موصول ہوتا، جب کہ یہ میزائل خاص طور پر حادثاتی طور پر پھینکا گیا ہو۔
اس موقع پر سیکریٹری برائے خارجی امور نے اپنے دورہ ماسکو کے جمع رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ اس دورے کی منصوبہ بندی پہلے ہی کرلی گئی تھی اور روس سے متعدد سطح پر مثبت گفتگو ہوئی۔
سینیٹر شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی پر گفتگو کرتے ہوئے زاتی ناراضگی کو دور رکھنا ضروری ہے۔