دبئی: یمن کے حوثی باغیوں نے اتوار کو علی الصبح سعودی عرب پر ڈرون اور میزائلز کے سلسلہ وار حملے کیے جس میں مائع قدرتی گیس کے پلانٹ، پانی صاف کرنے کے پلانٹ، تیل کی تنصیبات اور پاور اسٹیشن کو نشانہ بنایا گیا۔
نجی اخبار میں شائع بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق یمن میں لڑنے والے سعودی فوجی اتحاد نے کہا کہ حملوں میں جانی نقصان نہیں ہوا لیکن علاقے میں شہریوں کی گاڑیوں اور گھروں کو نقصان پہنچا۔
یہ حملہ سعودی عرب پر حوثیوں کے سرحد پار حملوں میں تازہ ترین اضافہ ہے کیونکہ امن مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہیں اور 7 سال سے جاری تنازع کے دوران یمن میں غم و غصے میں اضافہ ہوا ہے۔
خام تیل کے سب سے بڑے برآمد کنندہ سعودی عرب نے سرحد پار حملوں کے بعد اتوار کو توانائی کی بڑی کمپنی آرامکو کی طرف سے چلائی جانے والی تنصیبات پر تیل کی پیداوار میں عارضی کمی کا اعلان کیا ہے جہاں اس سے قبل آرامکو نے 2021 میں منافع میں 124 فیصد کے ساتھ 110 ارب ڈالر کے اضافے کا اعلان کیا تھا کیونکہ عالمی سطح پر تیل کی سپلائی کی قلت، تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور وبائی امراض سے ایندھن کی طلب اور قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا۔
یمن کے حوثی باغیوں کے ترجمان یحییٰ ساری نے کہا کہ انہوں نے سعودی عرب میں ایک وسیع اور بڑا فوجی آپریشن شروع کیا ہے۔
سعودی فوجی اتحاد نے کہا کہ اس نے آرامکو کی جانب سے بحیرہ احمر کی بندرگاہ یانبو میں پیٹرو کیمیکل کمپلیکس میں چلائے جانے والے مائع گیس کے پلانٹ پر حملے کو ناکام بنا دیا۔
اتحاد نے کہا کہ دیگر فضائی حملوں میں ملک کے جنوب مغرب میں ایک پاور اسٹیشن، بحیرہ احمر کے ساحل پر الشقیق میں پانی صاف کرنے کی ایک سہولت، جیزان کے جنوبی سرحدی قصبے میں آرامکو کے ٹرمینل اور جنوبی شہر خامس مشیط میں ایک گیس اسٹیشن کو نشانہ بنایا گیا۔
سعودی انفراسٹرکچر اور توانائی کی تنصیبات کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے تفصیلات واضح نہیں ہو سکیں، سرکاری سعودی پریس ایجنسی نے فائر ٹرکوں کی مختلف تصاویر پوسٹ کیں جنہیں آگ بجھاتے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ ڈرون اور بیلسٹک میزائل حملوں سے متعدد گاڑیاں تباہ ہو گئیں اور گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔
یہ حملے ایسے موقع پر کیے گئے کہ جب چند روز قبل سعودی عرب میں قائم خلیج تعاون کونسل نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے یمن میں لڑنے والے فریقیں کو ریاض میں مذاکرات کے لیے مدعو کیا ہے جس کا مقصد جنگ کو ختم کرنا ہے۔
تاہم خلیج تعاون کونسل کی یہ پیشکش حوثیوں کی جانب سے مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا تھا کہ مذاکرات ایک غیر جانبدار ملک میں ہونے چاہئیں۔
حوثی باغیوں نے تیل کی دولت سے مالا مال علاقے مارب پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی جس کے بعد سے امن مذاکرات مسلسل ناکامی سے دوچار ہیں۔
یمن کی یہ جنگ 2015 میں شروع ہوئی جب ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے ملک کے دارالحکومت صنعا اور بیشتر شمالی حصے پر قبضہ کر لیا تھا، سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں نے حوثیوں کے خطرے کے خاتمے اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کی بحالی کے لیے فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا۔
تاہم تنازع کو 8 سال گزرنے کے باوجود اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید شدت آئی ہے، اس جنگ نے دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کو جنم دیا ہے اور اقوام متحدہ یمن میں بدترین قحط سالی اور انسانی بحران کے حوالے سے متعدد بار خبردار کر چکا ہے۔