کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) پاکستان کے سینئر رہنما عامر خان اور دیگر 2 رہنماؤں کو ‘ناکافی ثبوت’ کے باعث 7 سال بعد سیل شدہ ہیڈ کوارٹرز ‘نائن زیرو’ میں مشتبہ عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کے مقدمے میں بری کر دیا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما عامر خان، سابق سیکیورٹی انچارج منہاج قاضی اور رئیس عرف ماما پر پارٹی کے مرکز عزیز آباد میں مطلوبہ ملزمان کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
کراچی سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کرنے والےانسداد دہشت گردی سیون کے جج نے دونوں جانب سے شواہد اور حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔
اس موقع پر عامر خان ضمانت پر پیش ہوئے جبکہ رئیس ماما اور منہاج قاضی کو جیل سے عدالت میں پیش کیا گیا۔
اے ٹی سی جج نے مشاہدہ کیا کہ استغاثہ تینوں ملزمان کے خلاف الزام ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے اس لیے ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔
جج نے عامر خان کی ضمانت منسوخ کرتے ہوئے جیل حکام کو ہدایت کی کہ گر کسی دوسرے کیس میں ان کی تحویل کی ضرورت نہیں ہے تو رئیس ماما اور منہاج قاضی کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
تاہم، دونوں ملزمان رئیس ماما اور منہاج قاضی کو رہا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دونوں کے خلاف کئی دیگر مقدمات بھی درج ہیں۔
مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ نے 6 گواہوں پر جرح مکمل کی جن میں کیس کے دو تفتیشی افسران، انسپکٹر محسن زیدی اور انسپکٹر راشد حسین، شکایت کنندہ رینجرز ڈی ایس آر ریاض اور تین پولیس اہلکار شامل تھے۔
رینجرز نے 11 مارچ 2015 کو پارٹی ہیڈ کوارٹر اور اس کے اطراف میں ایک چھاپہ مار کارروائی کے دوران ان ملزمان کو کئی دیگر افراد کے ساتھ حراست میں لیا تھا۔
رینجرز کے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر رانا خالد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پیرا ملٹری فورس نے چھاپے کے دوران ولی بابر قتل کیس میں سزائے موت پانے والے فیصل محمود عرف موٹا سمیت عامر خان اور دیگر 26 افراد کو گرفتار کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے رہنما نے 5دیگر افراد کے ساتھ مبینہ طور پر ان جرائم پیشہ افراد کو پناہ دی تھی جنہیں وہ شہر میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتے رہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے ایم کیو ایم رہنما خان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی۔
پروسیکیوٹر نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ عامر خان کے خلاف یہ ثابت کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں کہ وہ رئیس ماما، قاضی منہاج اور تین مفرور ملزمان شہزاد ملا، عمران اعجاز نیازی اور نعیم عرف ملا کو دہشت گردی کی کارروائیوں سمیت جرائم کرنے کی ہدایات دیتے رہے ہیں۔
انہوں نے جج سے استدعا کی تھی کہ ملزمان کو قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا دی جائے۔
دوسری جانب ملزم کے وکیل شوکت حیات نے مؤقف اختیار کیا کہ گرفتاری کے وقت عامر خان ملک کی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے رکن تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پارٹی کا نائن زیرو ہیڈ کوارٹر سیاسی سرگرمیوں کے لیے تھا اور وہاں کسی مجرم کو پناہ نہیں دی گئی۔
اس کے علاوہ انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ استغاثہ ایف آئی آر سمیت ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا جس سے یہ ثابت ہو کہ ان کے مؤکل کسی مجرم کو مجرمانہ کارروائیوں کے لیے ہدایات جاری کرتے رہے ہیں۔
وکیل صفائی مشتاق احمد نے مؤقف اختیار کیا کہ رئیس ماما کو 26 مارچ 2018 کو کراچی ایئرپورٹ سے مبینہ طور پر پر انٹرپول کی مدد سے ملائیشیا سے ڈی پورٹ کیے جانے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا اور بعد ازاں انہیں کراچی سینٹرل جیل میں نظر بند کردیا گیا تھا جہاں تفتیشی افسر نے انہیں اس کیس میں گرفتار کیا۔
ملزمان کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ منہاج قاضی کو موجودہ کیس میں 2016 میں گرفتار ظاہر کیا گیا تھا، اس سے قبل وہ 1997 کے شاہد حامد قتل کیس کے سلسلے میں زیر حراست تھے۔
وکیل صفائی نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے کہ عامر خان نے دونوں ملزمان کو دہشت گردی یا دیگر جرم کے ارتکاب کے لیے کبھی کوئی ہدایات جاری کی ہیں۔
ملزمان کے وکیل کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ استغاثہ کی جانب سے ان پر لگائے گئے جھوٹے اور من گھڑت الزامات سے انہیں بری کیا جائے۔
مقدمے میں تین مفرور ملزمان شہزاد ملا، عمران اعجاز نیازی اور نعیم عرف ملا کو عدالت پہلے ہی اشتہاری قرار دے چکی ہے۔
انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 11 وی (دہشت گردی کی کارروائی کے لیے ہدایت دینے کی دفعات) 21۔جے (کیس ایسے شخص کو پناہ دینا جس نے اس دفعہ کے تحت کوئی جرم کیا ہو) اور دفعہ 7(دہشت گردی کرنے کی سزا) کے تحت عزیز آباد میں رینجرز اہلکار کی شکایت پر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔