اسلام آباد: فواد چوہدری کی جانب سے وزیر قانون کی حیثیت سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کے پیچھے مبینہ غیرملکی سازش کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کی ہدایات جاری کیے جانے کے صرف ایک دن بعد ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اپنے متنازع فیصلے میں کہا کہ حالات بتاتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد، غیر ملکی مداخلت اور پاکستان میں تعینات ریاستی نمائندوں کی سرگرمیوں کے درمیان گٹھ جوڑ ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق قاسم سوری نے اتوار کی شام قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے چار صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں قرار دیا کہ غیرملکی ریاست پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے اور وزیر اعظم عمران خان اس کا بنیادی ہدف ہیں، انہوں نے اس حقیقت کے باوجود غیر ملکی ریاست کا ذکر نہیں کیا گیا حالانکہ وزیر اعظم خان قوم سے خطاب کے دوران زبان پھسلنے کے سبب پہلے ہی امریکا کا نام لے چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے غیرملکی عزائم اور اس کے روابط کے بارے میں تفصیلات نہیں بتا سکتے لیکن یہ معلومات ان کیمرہ سیشن میں فراہم کی جا سکتی ہیں، قاسم سوری نے قومی سلامتی کمیٹی، وفاقی کابینہ اور پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے حالیہ اجلاسوں کو بھی اپنی رولنگ کی بنیاد بنایا جہاں ان اجلاسوں میں ‘خطرے’ پر بریفنگ دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ 31 مارچ کو اس معاملے پر بریفنگ کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن اپوزیشن نے اس کے بائیکاٹ یا اسے نظر انداز کرنے کا انتخاب کیا، تاہم ایوان کے اسپیکر اور محافظ کی حیثیت سے انہوں نے حکومتی عہدیداروں سے کہا کہ وہ انہیں قابل اطلاق قوانین کے تحت حقائق اور معلومات فراہم کریں۔
قاسم سوری نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کی سربراہی میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کو مختلف طریقوں سے ہٹانے کی مہم چلائی جا رہی ہے جس میں تحریک عدم اعتماد بھی شامل ہے، انہوں نے کہا کہ ایوان کے محافظ کی حیثیت سے حکومت اور وزیر اعظم کی تبدیلی کے اس غیر آئینی عمل میں ایک غیرملکی ریاست کے کردار پر لاتعلق رہ سکتے تھے اور نہ ہی خاموش تماشائی کے طور پر کام کر سکتے تھے، انہوں نے وضاحت کی کہ ان حالات میں تحریک عدم اعتماد پر غور نہیں کیا جا سکتا اور اسے مسترد کرنا پڑا۔
قانونی ماہرین کی رائے
اتوار کو اپنے استعفے کا اعلان کرنے والے ڈپٹی اٹارنی جنرل راجا خالد محمود خان نے ایک ٹی وی چینل کو بتایا کہ ایک آمر سے اس طرح کی توقع کی جا سکتی ہے لیکن جمہوری طور پر منتخب رہنما کی جانب سے پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ مجھ سے اس بارے میں مشاورت نہیں کی گئی اور ان کی رائے میں اٹارنی جنرل سے اس حوالے سے نہین پوچھا گیا۔
انہوں نے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا اور کہا کہ میرا خیال ہے کہ عمران خان کے خلاف مقدمہ آرٹیکل 6 (غداری) کے ضمرے میں آتا ہے۔
سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بھائی اور وکیل فیصل چوہدری نے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے بعض فیصلوں میں آئین کے آرٹیکل 5 کو دیگر تمام معاملات پر مقدم رکھا گیا ہے اور یہ کہ عدالت عظمیٰ کو اس ’لیٹرگیٹ‘ کا گہرائی سے جائزہ لینا ہو گا۔
قانونی ماہر اور پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کا موقف تھا کہ اگر تحریک عدم اعتماد قواعد کے خلاف تھی تو اسپیکر آفس کو اسے اسمبلی کے ایجنڈے پر لائے بغیر مسترد کر دینا چاہیے تھا، قرارداد ایجنڈے پر آنے کے بعد یہ ایوان کی ملکیت بن گئی تھی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے عدالت عظمیٰ کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ قاسم سوری کے پاس قرارداد کو ووٹ کے لیے پیش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، ان کا ماننا ہے کہ صدر، وزیراعظم، وزیر قانون اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چل سکتا ہے۔
دریں اثنا تحریک انصاف کے وکلا کے ونگ انصاف لائرز فورم نے احسن بھون کے بیان کی مذمت کی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے کہا کہ وہ سیاسی لڑائی میں فریق نہ بنے۔
سینئر قانون دان اکرم شیخ نے صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلی حکومت ہے جس نے جمہوریت کی آڑ میں آئین اور قانون کی حکمرانی کو بلڈوز کیا، انہوں نے وضاحت کی کہ اس مرحلے پر آرٹیکل 5 کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اسمبلی اجلاس عدم اعتماد پر ووٹوں کی گنتی کے لیے بلایا گیا تھا۔