حکومت کے اتحادی ساتھیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ موجودہ حکومت اگست 2023 میں اختتام پزیر ہونے والی اپنی مدت مکمل کرے گی اور اتحادی معاشی کو ہچکولے کھاتی معیشت کو بحال کرنے کے پیشِ نظر لیے جانے والے تمام ’سخت‘ فیصلوں میں معیشت کا ساتھ دیں گے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اتحادی حکومت کے فیصلے سے حکومت کو آگاہ کیا جائے گا۔
اتحادی شراکت داروں کی جانب سے یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت اراکین قومی اسمبلی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر حکومت کے فیصلے کا جائزہ بغور جائزہ لیں گے۔
شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک وفاقی وزیر نے ڈان کا بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادیوں کے اجلاس میں عام انتخابات کے مرحلے سے قبل قانونی، آئینی اور انتخابی اصلاحات کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں غیرمعمولی معاشی بحران سے نمٹنے اور ملک میں معاشی استحکام آنے تک ہمت نہ ہارنے کی تیاری کا عزم بھی ظاہر کیا گیا۔
اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کنوینر خالد مقبول صدیقی سمیت اتحادی جماعتوں کے سربراہان نے شرکت کی۔
بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے صدر خالد مگسی، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر خان ہوتی اور جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) کے صدر شاہ زین بگٹی بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔
دوسری جانب بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت پر دباؤ ڈالتے ہوئے قبل از وقت انتخابات پر زور دے رہی ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ 20 مئی کو اسلام آباد لانگ مارچ کی کال دیں گے، اس مارچ میں 30 لاکھ شہری شرکت کریں گے اور وہ تب تک گھر واپس نہیں جائیں گے جب تک آئندہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کردیا جائے۔
حکومت کی جانب سے ممکنہ طور پر ایک فیصلہ پیٹرول پر سبسڈی واپس لینے کا ہے جس کے بعد اس کی قیمت 50 روپے فی لیٹر تک بڑھنے کا امکان ہے۔
موجودہ صورتحال میں پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی فراہم کرنے کی مد میں حکومت خزانے پر ایک ارب کا بوجھ پڑے گا۔
علاوہ ازیں ملک میں جاری ہیٹ ویو پر بحث کرتے ہوئے کابینہ نے وزارت موسمیاتی تبدیلی کے تحت ایک خصوصی ٹاسک فورس بھی تشکیل دی۔
یہ ٹاسک فورس ملک کو مستقبل کے خطرات سے بچانے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو دور کرنے کے لیے اقدامات کرے گی۔
سول سرونٹس (سروس سے ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ) رول 2020 پر نظرثانی کی رپورٹ بھی کابینہ کے سامنے پیش کی گئی۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ قواعد ضوابط پر مشتمل ہیں جو پہلے سے ہی سرکاری ملازم (کارکردگی اور نظم و ضبط) رولز 2020 کا حصہ تھے۔
کابینہ کے اراکین نے کہا کہ قواعد کا استعمال سرکاری افسران پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا جاتا ہے جس کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔
اراکین نے منصفانہ اور بلاامتیاز احتساب کے عمل پر بھی زور دیا۔
کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دیتے ہوئے وفاقی کابینہ نے سول سرونٹس (سروس سے ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ) رولز 2020 کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مذکورہ رولز کے تحت سرکاری افسران کے خلاف کارروائی واپس لینے کی منظوری دی۔
وفاقی کابینہ نے وزارت خزانہ کی سفارش پر پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر یادگاری بینک نوٹ کے ڈیزائن کی منظوری بھی دی۔
وزارت خزانہ نے ایک بین الاقوامی فرم سے نوٹ چھاپنے کی تجویز پیش کی تھی جس پر 60 لاکھ 64 ہزار ڈالر لاگت آئے گی۔
وزارت خزانہ کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ عوام کا پیسہ بچانے کے لیے بینک نوٹ کو مقامی طور پر پرنٹ کیا جائے۔
وزارت تجارت نے وفاقی کابینہ کو برآمدات، درآمدات اور ادائیگیوں کے توازن کے تفصیلی تجزیے پر بریفنگ دی۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ مالی سال 2021-22 کے دوران برآمدات کا حجم 31 ارب 20 کروڑ ڈالر تھا اور درآمدات 76 ارب 70 ڈالر رہا، اس دوران برآمدات میں 4ارب 95 کروڑ ڈالر اور درآمدات میں 11ارب16 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا۔
کابینہ کے اراکین کو آگاہ کیا گیا کہ برآمدات بڑھانے کے لیے خطے کے دیگر ممالک کے برابر گیس اور بجلی کی مسابقتی نرخوں پر فراہمی ضروری ہے۔
مزید برآں، کورونا کی وبا سے متاثر ہونے والی کاروباری سرگرمیوں کی جلد از جلد بحالی کے لیے کوششیں کی جانی چاہئیں اور سرمایہ کاروں اور کاروباری برادری کو سہولیات فراہم کی جانی چاہیے۔
کابینہ کو درآمدات میں اضافے کے عوامل سے آگاہ کرتے ہوئے، وزارت تجارت نے کہا کہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ درآمدی بل کا باعث بنا، کورونا وائرس، گندم، چینی، کپاس، اسٹیل اور کھاد کی درآمد اور ڈالر کی قدر بڑھنے سے بھی درآمدی بل میں اضافہ ہوا۔
کابینہ نے وزارت تجارت کو ہدایت کی کہ وہ درآمدات کو کم کرنے، برآمدات بڑھانے کے ساتھ ساتھ درآمدی متبادل تلاش کرنے کے لیے ایک تفصیلی حکمت عملی پیش کرے۔
کابینہ نے صنعت کو فروغ دینے، پیداوار بڑھانے اور زرعی بنیادوں پر برآمدات اضافے کے پشِ نظر پالیسی سازی کے لیے کمیٹی کے قیام کی منظوری دی۔
یہ کمیٹی وزرائے تجارت، صنعت و پیداوار، نیشنل فوڈ سیکیورٹی اور متعلقہ وفاقی سیکریٹریز پر مشتمل ہوگی، وزیراعظم نے ہدایت کی کہ کمیٹی کا پہلا اجلاس آج (بدھ) کو ہوگا۔
دوسری جانب وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سافٹ ویئر کی برآمدات بڑھانے کے لیے سفارشات پیش کیں۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے میں سرمایہ کاری اور برآمدات کے وسیع امکانات ہیں جن سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے آئی ٹی مصنوعات کی 15 بلین ڈالر کی برآمد کا ہدف بھی مقرر کیا۔
وفاقی کابینہ نے 16 مئی کو ہونے والے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کی توثیق کی۔
ای سی سی نے قیمتوں میں فرق کے حوالے سے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ریفائنریوں کے دعوؤں کی ادائیگی کے لیے پیٹرولیم ڈویژن کے لیے 52 ارب روپے مختص کیے تھے جو 16 مئی سے شروع ہونے والے 15 دنوں کے لیے درست ہوں گے۔
کمیٹی نے خریف سیزن کے لیے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کی جانب سے حکومت سے حکومتی بنیادوں پر 2لاکھ میٹرک ٹن یوریا درآمد کرنے کی بھی منظوری دی۔