اتحادی جماعتوں کی ’سخت ‘ فیصلوں پر حکومت کا ساتھ دینے کی یقین دہانی

حکومت کی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور جمیعت علمائے اسلام (جے یو آےآئی-ف) نے حکومت کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ ہر ’سخت‘ فیصلے میں حکومت کا ساتھ دیں گے۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں سیاسی اور معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے متفقہ طور پر فیصلے لینے کے لیے اتحادی جماعتوں کا اجلاس طلب کیا ہے۔

وزیراعظم (آج) منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کی سربراہی بھی کریں گے، اجلاس میں وزیر اعظم لندن میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی جانب سے حال ہی میں کیے گئے فیصلوں پر تمام اراکین کو اعتماد میں لیں گے۔

برطانیہ اور متحدہ عرب امارات سے واپسی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے حکمران اتحاد میں شامل اتحادی جماعتوں سے مشاورت شروع کی، جس میں بظاہر انہیں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کی جانب سے لندن میں وزیراعظم کی حالیہ ملاقاتوں کے دوران کیے گئے فیصلوں سے آگاہ کیا۔

وزیر اعظم نے تینوں اتحادی جماعتوں کے سربراہ پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری، جے یو آئی (ف) کے مولانا فضل الرحمٰن اور ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی سے ملاقات کی۔

اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف جلد ہی حکومت میں شامل تمام اتحادیوں کا اجلاس بلائیں گے جس میں متفقہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ملک میں سیاسی اور معاشی دونوں طرح کے بحرانوں پر کس طرح قابو پایا جائے۔

حکومت کی جانب سے ممکنہ طور پر سب سے سخت فیصلے میں ایک پیٹرول پر سبسڈی ختم کرنا ہے اور اس کی قیمت میں 50 روپے فی لیٹر اضافے کا امکان ہے۔

اس وقت حکومت مبینہ طور پر پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دے کر ماہانہ 100 ارب روپے سے زائد کا بوجھ اٹھا رہی ہے۔

وزیراعظم آفس کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات میں وزیراعظم نے کہا کہ سخت فیصلے کرتے ہوئے قومی مفاد کو مقدم رکھا جائے گا۔

انہوں نے عوام کو ریلیف فراہم کرنے اور ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے حکمران اتحاد کی اجتماعی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ جمہوریت اور آئین کی پاسداری پاکستان کی ترقی اور استحکام کی ضمانت ہے۔

انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ مارکیٹ میں لوگوں کو ضروری اشیاء مناسب نرخوں پر دستیاب ہوں گی، اس سلسلے میں تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لایا جائے گا۔

دونوں رہنماؤں نے حکومت کو درپیش موجودہ معاشی اور سیاسی بحرانوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

دریں اثناء نواز شریف کے ساتھ لندن میں مقیم سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو حالات سے گھبرانا نہیں چاہیے اور اسے سر اٹھانا چاہیے۔

انہوں نے سوال کیا کہ اگر آج ہم شدید معاشی حالات سے نہیں نمٹتے تو کیا فرشتے ہمیں بچانے کے لیے اتریں گے؟

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ پاکستان کے معاشی حالات اس حد تک خراب نہیں ہوئی کہ اسے بہتری کی طرف واپس نہیں لایا جا سکتا۔

دریں اثناء پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر نے تصدیق کی کہ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سرکاری دورے پر امریکا روانہ ہونے کے بعد وزیراعظم سے ملاقات کی ہے۔

وزیر خارجہ اماراتی صدر شیخ خلیفہ بن زاید النہیان کے انتقال پر تعزیت کے لیے متحدہ عرب امارات کی قیادت سے ملاقات کریں گے۔

پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ان کی پارٹی مشترکہ طور پر ’سخت‘ فیصلوں کے نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ملک کے بہترین مفاد میں فیصلے کریں گے چاہے جو بھی ان کی سیاسی قیمت ادا کرنا پڑے گی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک کے ساتھ ناانصافی ہو گی اگر پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کی غلطیاں دور کرنے کے لیے اقتدار میں آنے والی حکومت مسائل کا کوئی حل فراہم کیے بغیر گھر واپس چلی گئی۔

دوسری جانب، ایم کیو ایم نے اس بنیاد پر نئے انتخابات کی مخالفت کی کہ یہ عام شہریوں کے لیے مالیاتی خسارے کا باعث ہوگا، باوجود اس کے کہ فیصلہ پارٹی کے حق میں ہوگا۔

انہوں نے وزیراعظم پر زور دیا کہ وہ تیزی سے کام کریں اور معاشی بحالی سے متعلق فیصلے لیں۔

گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ یہ ان کی پارٹی کے حق میں ہوگا کہ وہ جلد سے جلد الیکشن لڑتے ہوئے قومی اسمبلی کی ان 14 نشستوں کو واپس لیں جن کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں ایم کیو ایم سے’چھین کر پی ٹی آئی کو واپس دیا گیا ہے جو کہ ایک عام شہری کے لیے تباہ کن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کا خیال ہے کہ اگر انتخابات کسی بھی لمحے ہوئے تو عبوری حکومت عوام پر سخت فیصلوں کا بوجھ ڈالے گی کیونکہ اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوگا جو کہ غیر منصفانہ ہے۔

پارٹی کے ساتھی رہنما اور آئی ٹی کے وزیر سید امین الحق اور رابطہ کمیٹی کے رکن سید شکیل احمد کے ہمراہ میڈیا سے گفتگومیں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ معاشی حالات ابتر ہیں اور یہ سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ چارج سنبھالیں اور عوام کا اعتماد بحال کریں۔

ایم کیو ایم کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ معیشت کو مستحکم کرنے کے ساتھ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے سے قبل حکومت کو انتخابی اصلاحات کا آغاز کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ’ انتخابی اصلاحات کا کام ایک ہفتے میں کیا جا سکتا ہے، کیونکہ تمام پارٹیاں اپنا ہوم ورک کر چکی ہیں، اور اگر انہیں ضرورت ہو تو ہم اپنا ورکنگ پیپر بھی پیش کر سکتے ہیں‘۔

خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ آئندہ انتخابات بغیر مردم شماری اور نئی حلقہ بندی کے بغیر نہیں ہونے چاہئیں۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق ایک سوال کے جواب میں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ’بہت سی چیزیں بحث سے باہر ہیں، لیکن ادارے افراد سے زیادہ اہم ہیں اور نظام کا تسلسل تمام اداروں کے لیے ضروری ہے‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں