بلاول بھٹو کل وزیر اعظم شہباز کی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر حلف اٹھائیں گے

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تصدیق کی ہے کہ وہ کل اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر حلف اٹھائیں گے۔

کراچی میں پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ‘ہماری پارٹی نے اتحادی حکومت میں اپنی ذمہ داری نبھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں کل میں خود بطور وفاقی وزیر حلف اٹھاؤں گا اور حکومت کا حصہ بنوں گا’۔

بلاول بھٹو نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس وزارت کا حلف اٹھائیں گے لیکن بعد میں پریس کانفرنس میں اس جانب اشارہ کیا، جب ایک صحافی کی جانب سے خارجہ پالیسی کے معاملات پر تبصرہ کرنے کے لیے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ جلد ہی اس معاملے پر پریس کانفرنس کریں گے۔

پی پی پی کے متعدد رہنماؤں کے گزشتہ دنوں میڈیا کو انٹرویوز میں ان خبروں کی تصدیق کی تھی کہ بلاول بھٹو وزیر خارجہ بن سکتے ہیں جبکہ اس وقت اس معاملے پر پارٹی کے اندر مشاورت جاری تھی۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ میں شمولیت کے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ‘ملک کی صورت حال میں یک طرفہ فیصلہ سازی ممکن نہیں ہے اور یہ تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ دار ی ہے کہ وہ اجتماعی طور متحد ہوکر پر ملک کے مسائل کا حل تلاش کریں۔’

انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اتحادی حکومت کا حصہ ہونے کے ناطے کبھی پی پی پی کی ترجیحات کو وزن دیا جائے گا اور کبھی دوسری سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کو سامنے رکھا جائے گا تاکہ مل کر عوام کے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔

چیئرمین پیلزپارٹی کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ کوئی عام حالات میں بننے والی مخلوط حکومت نہیں ہے، یہ اتحادی حکومت پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کامیاب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ایک سلیکٹڈ، نااہل، نالائق حکومت کو گھر بھیج کرمعرض وجود میں آئی ہے’۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی ملک کی سیاسی تاریخ میں بہت بڑی کامیابی ہے اور آئندہ کے لیے ایک مثال بن گئی ہے کہ جب کسی حکومت سے جان چھڑانی ہو تو یہ ہی ایک آئینی اور قانونی طریقہ ہے۔

انہوں نے ملکی اداروں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ادارے ‘متنازع حیثیت سے اپنی آئینی حیثیت اور اختیار کے مطابق کردار ادا کرنے کے لیے راستہ ترتیب دے رہے ہیں جو خوش آئندہ ہے اور یہ ہر پاکستانی شہری کا فرض ہے کہ وہ اس تبدیلی کی امید رکھے اور مطالبہ رکھے کہ تمام ادارے اپنے آئینی کردار تک محدود رہیں’۔

کراچی حملے کی مذمت
چیئرمین پی پی پی نے اپنی پریس کانفرنس کے آغاز میں جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے باہر ہونے والے خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی ایسے واقعات کے خلاف آواز اٹھائے گی اور انہیں برداشت نہیں کیا جائے گا۔

اس طرح کے واقعات کو پاکستان کی ترقی اور امن کے خلاف ایک سازش قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر فورم سے ہر سطح پر اس سازش میں ملوث مجرموں کو جواب دیا جائے گا۔

انہوں نے دہشت گردوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ ہمارے بلوچ عوام کے حقوق کے نام پر ہمارے بلوچ بھائیوں اور بہنوں کی ترقی اور خوش حالی پر حملے کرتے ہیں۔

بلاول بھٹو نے بلوچستان کے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم جانتے ہیں کہ آپ کے مسائل کیا ہیں، ہم جانتے ہیں کہ آپ تکلیف میں ہیں، آپ ہم سے بہت سے ناراض ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ آپ اپنے حقوق پرامن طریقے سے حاصل کر سکتے ہیں، ہم کسی دہشت گرد کو اپنے بلوچ بھائیوں کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے’۔  

آئین شکنی کی تحقیقات
اپنی پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو نے 3 اپریل کے ان واقعات کی جانب بھی اشاریہ کیا جن میں قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر دیا تھا اور صدر ڈاکٹر عارف علوی نے سابق وزیر اعظم عمران کے مشورے پر قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت نے آئین پاکستان کو توڑا اور ہم اس آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ پر حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں، ہم اس معاملے کو ایسے نہیں چھوڑ سکتے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عمران خان کی سیاست ، جھوٹ اور پروپیگنڈے کی سیاست ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی موجودہ سیاست یہ ہے کہ مجھے کیوں نہیں بچایا اور اپنی مہم کے دوران وہ ہر اس ادارے کو نشانہ بنا رہے ہیں جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اس ادارے کو ہر قیمت پر ان کو بچانا چاہیے تھا، چاہے اس کے لیے انہیں غیر آئینی و غیر قانونی کام ہی کیوں نہ کرنا پڑیں۔

انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی ‘سازش’ میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پارٹی کی سی ای سی کا مطالبہ ہے کہ واقعے کی تحقیقات کی جائیں اور حقائق کو سامنے لایا جائے۔

پی پی پی رہنما نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے رویے اور اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہرآئینی ادارہ ان کے نشانے پر ہے۔

انہوں نے پی ٹی آئی چیئرمین سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ قومی اسمبلی میں واپس آئیں اور اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کریں۔

انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے پر کام کی ضرورت ہے اور انہوں نے لندن میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقاتوں کا حوالہ دیا۔

بلاول بھٹو نے دونوں جماعتوں کے درمیان مل کر کام کرنے کے عزم اور ارادے کی تعریف کی اور کہا کہ انہوں نے نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت کے ساتھ ساتھ ایک اور نئے میثاق جمہوریت کی تشکیل اور تکمیل پر بھی بات کی ہے۔

‘پی ٹی آئی نے تحریک عدم اعتماد واپس لے کر حکومت میں شمولیت کی پیش کش کی’
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ماضی میں نعرے لگائے جاتے تھے کہ پہلے احتساب پھر انتخاب مگر اب ہمارا مطالبہ یہ تھا کہ پہلے انتخابی اصلاحات کی جائیں پھر نئے انتخابات کرائے جائیں۔

اس سوال پر کہ حکومت ‘کیبل گیٹ’ تنازع کی تحقیقات کے لیے عدالتی تحقیقات کرنے سے کیوں ہچکچا رہی ہے، بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ انہیں اس پر کوئی تحفظات نہیں ہیں لیکن یہ حکومت اور اس کے مشترکہ اتحادیوں کا فیصلہ ہوگا۔

انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران اس کو ثابت کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا۔

ان کا مزید کہا کہ اس معاملے سے نمٹنے کے لیے جو بھی مناسب آئنینی قانونی طریقہ ہوگا اس کو اپنایا جائے گا۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہمیں پی ٹی آئی اور اس کے وزرا کی جانب سے تحریک عدم اعتماد واپس لے کر حکومت میں شمولیت کی پیش کش کی گئی تھی۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر حکومت کرنا ایک بچکانہ اور غیر سیاسی تجویز تھی مگر ہم نے ان سے مسلسل استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا اور پھر کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انہیں گھر بھیجا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں