عمر چیمہ کا وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر عارف علوی کو خط

گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے صدر مملکت عارف علوی سے وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے ‘متنازع انتخابات’ کے معاملے کے ساتھ ساتھ سبکدوش ہونے والے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے استعفے کے معاملے کو حل کرنے کے لیے مشورہ طلب کرلیا۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ نے اپنا استعفیٰ گورنر کو نہیں بلکہ وزیر اعظم کو دیا تھا جبکہ آئین کے آرٹیکل 130(8) کے تحت وزیر اعلیٰ گورنر کو استعفیٰ دیتا ہے۔

صدر کو لکھے گئے چھ صفحات پر مشتمل خط میں، پنجاب کے منتخب وزیر اعلیٰ سے حلف نہ لینے کی آئینی وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئےگورنر نے کہا ہے کہ ابتدائی طور پر عثمان بزدار کے متنازع استعفے کی وجہ سے صوبے میں سیاسی تعطل پیدا ہوا اور بعد ازاں وزیر متنازعہ وزیراعلیٰ کے انتخابات ہوئے۔

متعلقہ آرٹیکلز اور رولز کی وضاحت کے بعد گورنر نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے انتخابی عمل آئینی خلاف ورزیوں اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد اور لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کے حکم پر ایک کلاسک کیس ہے۔

گورنر نے کہا کہ آئینی رکاوٹوں کے پیش نظر ’میں غلط کو برقرار رکھنے کے لیے آگے نہیں بڑھ سکتا، میری خواہش ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مناسب کارروائی کی جائے جس پر آئین خاموش ہے‘۔

اپنے خط میں گورنر نے کہا کہ وہ ایک آئینی عہدے پر فائز ہیں اور انہیں اپنے آئینی کاموں کو انتہائی احتیاط کے ساتھ انجام دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے پاس خود کو نو منتخب وزیراعلیٰ حمزہ شہباز سے حلف لینے سے روکنے کی وجوہات ہیں۔

جیسا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ وہ (گورنر) وزیر اعلیٰ کے حلف میں تاخیر اور حلف نہ لینے کی وجوہات درج کریں، انہوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ یہ غلط ہے اور اپنے دفاع میں واقعات بیان کیے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے گورنر نے کہا کہ فیصلے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کو اپنے حلف کی پاسداری کرنی ہوگی اور وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے منصفانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ انداز میں انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہوگا۔

گورنر کا کہنا تھا کہ آئین کی شقوں سے متعلق میری سمجھ کے مطابق وزیر اعلیٰ کے انتخاب خامیوں سے بھرے ہوئے ہیں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے بینچ کی جانب سے دیے گئے فیصلے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

گورنر پنجاب نے اس کے بعد پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے ووٹوں کی ریکارڈنگ کی کارروائی کی وضاحت کی اور کہا کہ’یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جس طرح سے وزیر اعلیٰ کے انتخاب اور ووٹوں کی ریکارڈنگ کرائی گئی ہے وہ دوسرے شیڈول کی سراسر خلاف ورزی ہے اور لاہور ہائی کورٹ ڈویژن بینچ کی طرف سے دی گئی ہدایات کی روح کے بھی خلاف ہے۔

گورنر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکلز واضح کرتے ہیں کہ گورنر ایسے حالات میں حلف لینے کے لیے آگے بڑھنے کے پابند نہیں ہیں جہاں انتخابات کے انعقاد کے پورے طریقہ کار کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 130(5) کے تحت میکانکی طریقے سے آگے نہیں بڑھ سکتا، آپ کے علم میں لانے کی ضرورت نہیں کہ حلف برداری کے لیے آئین میں بھی کوئی مدت مقرر نہیں ہے‘۔

گورنر پنجاب نے سیکریٹری پنجاب اسمبلی کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب ایک غیر آئینی عمل کا شاخسانہ تھا، اس لیے اب میری آئینی سمجھ اور ضمیر کے مطابق بطور گورنر میں آرٹیکل 130 (5)کے تحت آگے نہیں بڑھ سکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں