وزیراعظم عمران خان اس دھمکی کی مزید تفصیلات منظرِ عام پر لے آئے جس کا انہیں گزشتہ ماہ کے اوائل سے سامنا تھا۔
قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے متعدد رہنما وزیراعظم کے دفتر پہنچے اور’کامیاب سرپرائز پر’ انہیں مبارکباد دی۔
نشر ہونے والے بیان میں وزیراعظم نے انہیں بتایا کہ جب قومی سلامتی کونسل (این ایس سی) نے تحریک عدم اعتماد میں کسی بیرونی قوت کے ملوث ہونے کی مذمت کردی تو اس پر ووٹنگ ہونا غیر متعلقہ ہوگیا تھا’۔
عمران خان نے انکشاف کیا کہ امریکا نے پاکستانی سفیر کے ذریعے دھمکی آمیز پیغام بھیجا تھا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسط ایشیائی امور ڈونلڈ لو نے سفیر اسد مجید کے ساتھ ملاقات میں خبردار کیا تھا کہ اگر وہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد سے بچ جاتے ہیں تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین امریکی سفارتخانے کے لوگوں سے ملاقاتیں کیا کرتے تھے۔
ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘آخر کیا وجوہات تھیں کہ جن لوگوں نے ہمیں چھوڑ دیا ان کی گزشتہ چند روز میں سفارتخانے کے لوگوں سے کئی ملاقاتیں ہوئیں’۔
عمران خان نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو اپوزیشن کے لیے دھچکا قرار دیا اور کہا کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ انہیں (اپوزیشن کو) ایک روز قبل سرپرائز کے بارے میں بتادیتے تو انہیں اس قدر صدمہ نہیں ہوتا۔
وزیراعظم کا سرپرائز
خیال رہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد سامنے آنے والے سیاسی اتار چڑھاؤ میں حکومت کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے ہاتھ ترپ کا پتا ہونے کے دعوے کیے جاتے رہے تھے۔
تاہم 27 مارچ کو وزیراعظم کے ایک اقدام نے تحریک عدم اعتماد کے معاملے کو یکسر مختلف رنگ اس وقت دیا جب ‘امر بالمعروف’ کے عنوان سے منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ ان کی حکومت کو گرانے کی تحریری طور پر دی گئی دھمکی ہے۔
خط سامنے آنے کے بعد مختلف قیاس آرائیاں پائی جارہی تھی چنانچہ حکومت نے اس مراسلے کو چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔
تاہم اگلے ہی روز اپنے فیصلے میں تبدیلی کرتے ہوئے مبینہ دھمکی آمیز خط پر کابینہ اراکین کے علاوہ میڈیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بھی بریفنگ دی گئی۔
دریں اثنا علیحدہ طور پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ خط اصل میں سفارتی کیبل تھا جو امریکا میں پاکستان کے اُس وقت کے سفیر اسد مجید نے کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو سے ملاقات کی بنیاد پر بھیجی تھی۔
ایک سینئر پاکستانی عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ ملاقات میں امریکا کی جانب سے استعمال کی گئی زبان غیر معمولی طور پر سخت تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تک عمران خان دھمکی آمیز مراسلے کے ساتھ منظر عام پر نہیں آئے اس وقت تک امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں ٹوٹ پھوٹ یا نئی کشیدگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔
مذکورہ صورتحال پر وزیراعظم کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اہم وفاقی وزرا، مشیر قومی سلامتی، مسلح افواج کے سربراہان نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا گیا کہ مشیر قومی سلامتی نے کمیٹی کو ایک غیر ملک میں پاکستان کے سفیر کے ساتھ غیر ملکی اعلیٰ عہدیدار کے باضابطہ رابطے اور کمیونیکیشن کے بارے میں بریفنگ دی، غیر ملکی اعلیٰ عہدیدار کے رابطے اور کمیونیکیشن سے متعلق وزارت خارجہ کے سفیر نے باضابطہ طور پر آگاہ کیا تھا۔
اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلہ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے غیر ملکی عہدیدار کی جانب سے استعمال کی جانے والی زبان کو غیر سفارتی قرار دیا تھا۔
قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلے کو پاکستان کے معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا—تصویر: پی آئی ڈی
جاری بیان کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے بریفنگ پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ یہ خط مذکورہ ملک کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے جو ناقابل قبول ہے۔
بعدازاں دفتر خارجہ نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہوئے فیصلے کے مطابق سفارتی ذریعے سے باضابطہ مراسلہ دے دیا اور اس حوالے سے جاری بیان میں بھی کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا۔
البتہ قوم سے خطاب کے دوران بظاہر زبان پھسلنے کی صورت میں وزیر اعظم نے امریکا کا نام مبینہ طور پر اس مراسلے کے پسِ پردہ ملک کے طور پر لیا، لیکن پھر کہا کہ یہ کوئی اور ملک ہے امریکا نہیں۔