ہم پہلے ہی یہ وضاحت کردیں کہ یہاں ہمارا مقصد کسی کی صفائی دینا ہے اور نہ ہی کوئی عذر تراشنا کہ یہ ساری تحریر فقط علمی ہے اور اس کا مقصد لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہے۔
گزشتہ دنوں ایک طالب علم نے ہم سے پوچھا کہ ‘گالی کیا ہوتی ہے؟’ تو ہمارے اساتذہ نے اس کا بہت آسان سا جواب عطا فرمایا ہے کہ ‘بیٹا، ہر وہ لقب یا لفظ جسے سننے والا ناگواری محسوس کرے یا اسے بُرا لگے، وہ گالی ہے’۔ اب چاہے اس دشنام میں کسی ناپسندیدہ جانور، بُرے پیشے سے یا کسی بُرے ارادے کا اظہار کیا گیا ہو یا نہیں۔
شاید اختصار کے ساتھ یہ بات تمام ہی قارئین کو سمجھ میں آگئی ہوگی کہ بعض وقت احمق، بدھو اور بے وقوف جیسے ہلکے پھلکے ‘خطابات’ بھی باقاعدہ ‘گالی’ ہی کے زمرے میں گنے جاسکتے ہیں، یہاں تک کہ سننے والا اسے بہت ہلکا پھلکا سمجھے۔
ویسے کہنے کی بات تو یہ ہے کہ بہت سے دوست یار تو ماں، بہن کی گالیوں کو بھی اپنے اندازِ تخاطب یا تکیہ کلام کے طور پر بہت کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہمارا بڑا عجیب و غریب اور اصلاح طلب رویہ ہے کہ خاندان سے باہر اپنے حلقۂ احباب میں ہماری اپنائیت کی علامت ‘تو تڑاخ’ اور ‘ابے تبے’ کی زبان ہی سے ہوتی ہے اور کچھ ‘اپنے’ تو باقاعدہ 2، 4 مغلظات ٹانک کر گویا اپنی اس ‘بے تکلفی’ پر مہر ثبت کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں وزیرِاعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گِل نے ایک نجی ٹی وی کے مذاکرے میں مشتعل ہوکر اپنی ہی جماعت کے ایک منحرف رکن ڈاکٹر رمیشن کمار کو مغلظات سے نوازا پھر ‘عذرِ گناہ، بدتر از گناہ’ کے مصداق ایک خاتون صحافی کے اس گالم گلوچ سے متعلق استفسار پر ایک اور غیر مناسب لفظ استعمال کر ڈالا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہر جگہ کی لسانیات مختلف ہوتی ہے، مجھے بھی چند دن پہلے پتا چلا کہ پنجاب میں ہم بیوہ کے لیے جو لفظ استعمال کرتے ہیں، وہ کراچی میں گالی سمجھا جاتا ہے۔
اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ لغوی اور تاریخی معنی وقت کے ساتھ یکسر طور پر ‘بے معنی’ ہوجاتے ہیں اور اس کے اصل معانی و مفاہیم اس وقت اور تناظر کے ہی ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم اردو کے بہت سے الفاظ کو مستثنٰی قرار دے سکتے ہیں کہ وہ لفظ مخاطب اس طرح نہیں سمجھ پایا جیسا کہنے والے یا لکھنے والے نے چاہا تھا۔ وہاں تو ہم قدرے رعایت دے سکتے ہیں، لیکن جن الفاظ کے ایک واضح معنی پتھر پر لکیر کی سی طرح موجود ہوں اس میں تاریخی یا کہیں کے محدود معانی پر بات کرنا سراسر گمراہ کرنے کی کوشش یا معذرت سے بچنے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔
اگرچہ شہباز گِل کی جانب سے برتے گئے لفظ کی بابت تاریخی طور پر یہ بات درست ہے کہ اردو میں بھی ‘رنڈی’ کے سب سے پہلے اور قدیم معنی عورت ہی کے ہیں۔ اردو لغت میں تاریخی اعتبار سے اس کو ‘بیوہ’ کے مترادف لفظ کے طور پر بھی برتا جاتا رہا ہے۔ اس لفظ کے ‘عورت’ کے طور پر استعمال کی سند 1740ء کے زمانے کی ہے، جبکہ ‘بیوہ’ کے معنی 1930ء کی سند سے ملتے ہیں۔ اس لفظ کے حالیہ بُرے معنی کسی حد تک 1830ء میں اور اس کے بعد مکمل طور پر 1974ء میں ملتے ہیں، جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ عورت جس کا کردار درست نہ ہو۔
جیسا کہ ہم ابتدا میں عرض کرچکے ہیں کہ زبان کے الفاظ ہی نہیں اس کے لفظوں کے معنی بھی وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ شہباز گِل کے دوسرے لفظ ‘دلال’ کا ماجرا بھی کچھ یہی ہے کہ یہ لفظ کہنے کو بہت عام سا ہے اور اس کے لغوی معنی میں بھی قطعی کوئی بُرائی موجود نہیں۔
‘دلال’ دراصل عام خرید و فروخت کے معاملے میں فریقین کو ملانے اور ان کا سودا طے کرانے والا فرد ہوتا ہے۔ آڑھتی کا لفظ بھی اسی ذیل میں بہ کثرت استعمال کیا جاتا ہے اور اس کام میں فریقین سے وہ جو اپنا کمیشن لیتا ہے اسے بھی اردو میں ‘دلالی’ ہی کہا جاتا ہے۔ ایک بہت عام سی مثل بھی ہے کہ ‘کوئلوں کی دلالی میں ہاتھ کالے کرنا’ جس کے معنی یہ ہیں کہ بُرے کام کرنے کے نتیجے میں بُرائی ہی مول آتی ہے۔
ہم نے تو اپنے گرد و پیش میں جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والوں کے لیے ‘دلال’ کا لفظ بہت عام استعمال ہوتے ہوئے سنا ہے، جسے اب زیادہ تر ‘اسٹیٹ ایجنٹ’ (Estate نہ کہ State) کہا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس لفظ کے بُرے نہ ہونے کا تاثر ہمارے حلقے میں اتنا مضبوط رہا کہ ایک محترم بزرگ ‘نواب دلال’ کے نام سے عزت بھی پاتے رہے۔ لیکن ہمارے حلقے سے باہر اور اب گزرتے وقت کے ساتھ یہ لفظ صرف بدچلنوں کے درمیان معاملات طے کرانے والے شخص کے لیے ہی مخصوص ہوگیا ہے، لہٰذا اب بجا طور پر یہ لفظ معیوب ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی لفظ کا مضافاتی استعمال یا محدود سطح پر کوئی معنی دینا ہر خطیب اور مقرر کو پہلے سے پتا ہونا چاہیے تاکہ ایسے ابہام اور غلط فہمیوں کے امکان سے بھی محفوظ رہے، چہ جائیکہ وہ دھڑلے سے اپنی بدکلامی کا دفاع کیے جائے۔
اردو میں ایسا ہی ایک عام لفظ ‘مجرا’ بھی ہے۔ آج آپ کسی سے بھی دریافت کرلیجیے، وہ رقص وغیرہ کی محفل ہی سے اس کا مطلب نکالے گا لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ لفظ بھی ایک بہت محترم اور مختلف معنوں میں استعمال ہوتا رہا ہے۔
‘اردو لغت بورڈ’ کی لغت ہی ٹٹول لیجیے، تو باآسانی پتا چل جائے گا کہ یہ لفظ سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی سے لے کر ابھی بیسیوں صدی تک میں بھی ہمارے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے اپنی کتاب ‘آبِ گم’ میں بطور آداب ہی کے مذکور فرمایا ہے۔ لیکن یہ لفظ بھی اب اپنے استعمال اور موقعِ محل کے حساب میں رقص و ناچنے گانے سے ہی نتھی ہوکر رہ گیا کہ آج ہم حیران ہوکر پڑھ رہے ہیں کہ مجرا کرنے کے معنی ‘سلام کرنا’ یا ‘آداب بجا لانا’ بھی ہوتا تھا۔
معنی بدلنے کے حوالے سے اردو کے عام طور پر برتے جانے والے دو مزید الفاظ بھی ایسے ہیں، جس میں سے ایک لفظ عربی سے لیا گیا ہے، جبکہ دوسرے کی جڑیں فارسی میں ہیں۔ دونوں میں مماثلت یہ ہے کہ ‘اردو’ نے دونوں لفظوں کو اپنے گھرانے میں سمویا ہی اس طرح ہے کہ اس کے معنی مخصوص کردیے یا یکسر ہی اپنی ضرورت کے مطابق وضع کرلیے۔
ان میں سے پہلا لفظ ‘عورت’ ہے، جو عربی سے لیا گیا ہے اور عربی دانوں کے سان وگمان میں بھی نہ ہوگا کہ برِصغیر میں ان کے اس لفظ کو کیا جامے پہنائے گئے ہیں۔ یہاں بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم اردو میں خاتون یا صنفِ نازک کو عام طور پر عورت ہی کہتے ہیں۔ لیکن عربی میں معنی تلاش کیجیے گا تو وہاں خواتین کے لیے ‘نساء’ کا لفظ ہے اور ‘عورت’ کے معنی کسی بھی چُھپی ہوئی چیز کے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک حدیث مبارکہ میں مقامِ ستر کا تعین کرتے ہوئے بھی عورت کا لفظ آیا ہے، یعنی جسے چھپایا جانا ضروری ہو۔ چونکہ ہمارے ہاں پردے داری کا چلن بہت زیادہ رہا ہے اور اسی اعتبار سے خواتین کے لیے اس لفظ کا استعمال شروع ہوا اور آج پردے داری کا چلن بڑھے یا گھٹے، خواتین کے لیے ‘عورت’ کا لفظ اردو میں اپنے اسی معنی کے ساتھ پوری طرح راسخ ہوچکا ہے۔
دوسرا لفظ جسے اردو نے فارسی سے اخذ کیا وہ ‘ضعیف’ ہے۔ آپ کو بھی یاد ہوگا کہ اردو کے قاعدے میں ہمیں ‘ض’ سے ضعیف پڑھایا گیا، جس میں کسی جھریوں والے چہرے کے حامل بزرگ کی تصویر دکھائی گئی۔ یعنی اردو دانوں نے ‘ضعیف’ کے معنی بوڑھے کے وضع کیے جبکہ اہلِ فارس نے قطعی یہ معنی نہیں بتائے۔ ان کے ہاں تو ضعیف کے معنی کمزور کے ہیں۔
اب وہ ضعیف کوئی روایت بھی ہو سکتی ہے اور اس اعتبار سے کوئی جوان بھی اگر کسی بیماری میں کمزور ہو تو اسے بھی ضعیف کہا جاسکتا ہے۔ لیکن ہم نے ضعیف کا عمومی معنی بوڑھے ہی کا کیا۔ ہم نے کیا بلکہ زمانے نے اور اس زبان کے استعمال کرنے والوں نے کیا۔ اگر ضعیف لفظ کے بہ معنی ‘کمزور’ کے استعمال کو دیکھیے، تو ہم اکثر مقدس اوراق کی بابت ‘ضعیف اوراق’ کی اصطلاح بھی استمعال کرتے ہیں۔
اس لیے ہمیں زبان اور ‘لسانیات’ کی یہ بنیادی معلومات رکھنے کے ساتھ اظہارِ خیال کرتے ہوئے اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے کہ بھلے کسی لفظ کے معنی لغت میں کچھ بھی درج رہے ہوں، لیکن اگر ہمارے سننے اور پڑھنے والوں کے ہاں اس کے مفاہیم کچھ اور ہیں، تو پھر دھیان کرلیجیے کہ لغت کے معنی محض ‘تاریخ’ یا فقط علمی طور پر تو ضرور ہوں گے، لیکن مخاطب کے ہاں وہی مطلب سمجھا جائے گا، جو موقع اور محل ہوگا اور اس کا جو مطلب رائج ہوگا۔
بعید نہیں کہ کچھ عرصے بعد لغت بھی اس کے نئے معنوں کے بہاؤ کے آگے سرنگوں ہو اور پھر وہ معنی بھی اس لفظ کے معنی میں سند بن جائیں۔ جیسا کہ شاید کچھ برس پہلے تک ‘کدو’ صرف ایک سبزی ہی کا نام تھا، لیکن اب گلی کوچوں میں بہت کثرت سے کسی بھی بات کو مسترد کرنے کے لیے بھی ‘کدو’ کہا جانے لگا ہے۔