نومبر 1989ء، سال اور مہینہ تو یاد ہے اور اگر ذہن پر زور ڈالوں تو تاریخ بھی یاد آجائے گی کہ ہم کابل میں اس وقت کے ماسکو کے عنایت یافتہ صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کے مہمان تھے۔
منہاج برنا، عبدالحمید چھاپڑا، جی این مغل جیسے ممتاز صحافیوں کے ساتھ جب ہمیں کابل کے دورے کی دعوت ملی تو بے نظیر بھٹو کی حکومت کے جانے کی خبریں آ رہی تھیں۔ دوستوں نے کہا کہ یہ وقت پروفیشن کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم ملک میں رہیں مگر اس وقت افغانستان کا محاز بھی گرم تھا۔
جنرل حمید گل اپنی دانائی سے مجاہدین کی تنظیموں حتیٰ کہ اسامہ بن لادن کے قریبی تعلق کے سبب وزیرِاعظم بھٹو کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ کابل کا سقوط ٹہر گیا ہے۔
جلال آباد پر حملہ ہوچکا تھا۔ صحافتی تقاضہ بھی ہمیں اُکسا رہا تھا کہ جلال آباد کی فتح کے بعد جب وہ کابل پہنچیں تو ہم ایئرپورٹ پر ان کے استقبالیہ میں شامل ہوں۔ یہ لیجیے میں اکثر اعتراف کرچکا ہوں کے قلم شروع کہاں سے ہوتا ہے مگر یادوں کا ہجوم اسے بھٹکا دیتا ہے۔
بات تحریک عدم اعتماد کی ہو رہی تھی، دسمبر 1988ء میں پیپلز پارٹی کو اقتدار سنبھالے سال بھی نہیں ہوا تھا کہ ان کے سب سے بڑے مخالف شریف خاندان نے ایوانِ صدر میں دستک دینی شروع کردی تھی جہاں پہلے ہی بزرگ صدر اسحٰق خان اپنے اس پچھتاوے کا ازالہ کرنے کے لیے بے چین تھے کہ جلد سے جلد محترمہ کو گھر بھیجا جائے۔
10 سال دورِ سیاہ کے بعد ہونے والے پہلے انتخابات میں اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ کی یہ مجبوری تھی کہ وہ اسمبلی میں سب سے زیادہ یعنی 94 سیٹیں لینے والی جماعت کو ان کا آئینی حق دیتے ہوئے اقتدار دیں۔ یہاں ترپ کا پتہ ہمارے شہر کے دیو مالائی کردار الطاف بھائی کے پاس تھا جن کی اس وقت قومی اسمبلی میں 13 نشستیں تھیں جن کے بغیر محترمہ کا اقتدار میں آنا ممکن نہیں تھا۔ شاید آج کی صحافتی اور سیاسی جنریشن کو الطاف حسین کی بے پناہ اسٹریٹ پاور کا اندازہ نہ ہو۔ یہ وہ وقت تھا جب محاورے کی نہیں عملاً ان کی مرضی کے بغیر ان کے شہری علاقوں میں پتہ تک نہیں ہلتا تھا۔
الطاف بھائی عزیز آباد کے 120 گز کے دفتر میں اپنے سارے ارکان کو بغلوں میں دبائے بیٹھے تھے، جی وہی گھر جسے 90 کے نام سے شہرت حاصل ہے۔ 52 نکات جن میں سے بیشتر ناقابلِ عمل تھے ان کے سینے سے لگے تھے۔ ساتھ میں یہ شرط بھی تھی کہ بھٹو کی بیٹی مستقبل کی وزیرِاعظم خود چل کر ان کے دربار میں حاضر ہو، اور پھر ایسا ہی ہوا۔
پیپلز پارٹی کی قائد نے ایم کیو ایم کی 13 بے ساکھیوں سے وزارتِ عظمیٰ کا کانٹوں بھرا تاج بھی پہن لیا۔ سندھ میں ان کی اپنی حکومت، صوبہ سرحد میں مخلوط، بلوچستان میں معذرت کے ساتھ چُو چُو کا مربہ مگر سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں شریف ’جاگ پنجابی جاگ‘ کا نعرہ لگا کر تخت لاہور پر بیٹھ چکے تھے۔
وزیرِاعظم کے قریبی مشیر واجد شمس الحسن اپنی کتاب ’بھٹو خاندان میری یادوں میں‘ میں لکھتے ہیں کہ ‘حمید گل کی نگرانی میں بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر پر مشتمل ٹاسک فورس بنائی جاتی ہے۔ حمید گل کی ایوانِ صدر آمد و رفت بڑھ جاتی ہے’۔
واجد شمس الحسن لکھتے ہیں کہ ‘ایم کیو ایم کی قیادت سے بات ہوئی تو انہوں نے وعدہ خلافی اور زیادتیوں کی بات کی مگر اس بات کا اعتراف کیا کہ ایوانِ صدر کے سامنے مجبور ہیں، ان کے مسائل سویلین وزیرِاعظم حل نہیں کرسکتا’۔
اب میں پھر آپ کو کابل لیے چلتا ہوں۔ ایک طرف ہمارے مزار شریف قندہار کے دورے جاری تھے تو دوسری طرف حمید چھاپڑا کی صحافتی بے چین روح مسلسل ٹیلیفون سے اسلام آباد کے سیاسی پنڈتوں سے رابطے میں تھی۔ پھر یہ خبر آئی کہ ایم کیو ایم نے بھی اپنا وزن شریف اتحاد میں ڈال دیا ہے۔ اس شام کابل کے ایک ریسٹورینٹ میں ہم نے کاوا کے کڑوے گھونٹ بھینچے۔ تحریک عدم اعتماد کے دن ہم سب ریڈیو سے سر جوڑ کر بیٹھے تھے کہ یہ آج کے میڈیا کا زمانہ تو تھا نہیں اور نہ ہی سیاسی جوڑ توڑ پنڈی آب پارہ کی فون کالوں کی لمحہ بہ لمحہ خبر ملتی تھی۔
بہرحال، خبریں آرہی تھیں کہ چھانگا مانگا اور مری کے ہوٹلوں میں حامیوں اور ممکنہ باغیوں کو تحویل میں رکھا گیا ہے۔
اس سلسلے میں خیبر پختونخوا کی ممتاز سیاسی رہنما کلثوم سیف اللہ نے اپنی کتاب ‘میری تنہا پرواز’ میں لکھا ہے کہ ‘میاں نواز شریف نے انہیں خاص طور پر اسلام آباد طلب کیا جہاں ایک بڑے گیسٹ ہاؤس میں اپوزیشن کے اراکین کو رکھا گیا تھا۔ میاں صاحب نے مجھے حکم دیتے ہوئے کہا بلکہ ساتھ میں ایک چھڑی بھی دی اور کہا کہ بیگم صاحبہ آپ کو رات بھر ان کی نگرانی کرنی ہے۔ کوئی یہاں سے باہر نہ نکلنے پائے’۔
بیگم سیف اللہ لکھتی ہیں کہ ’میں نے یہ ڈیوٹی رات بھر نبھائی بھی‘۔ اُدھر پیپلز پارٹی کی قیادت نے زرداری صاحب کو یہ ذمہ داری دی ہوئی تھی کہ ان کا کوئی رکنِ اسمبلی میاں صاحب کے دیے ہوئے ’rate‘ پر جو ان دنوں ایک کروڑ تک پہنچ گیا تھا، اپنی وفاداری نہ تبدیل کر لے۔
اس سلسلے میں سندھ کے ایک مرحوم رہنما نے کہا کہ جب زرداری صاحب کا ایک ذاتی دوست 5 لاکھ روپے لے کر ان کے پاس آیا تو وہ ششدر رہ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے یقین دلایا بھی کہ میں پارٹی کا جیالا ہوں مگر ان کا اصرار تھا (صاحب نے کہا ہے اسے رکھ لیں)۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ایک رکنِ اسمبلی کے پاس جب زرداری صاحب کے ایک اور دوست یہی رقم لے کر پہنچے تو انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ‘جناب یہ آپ کیا لے کر آئے ہیں، ہم ایم این اے ہیں، ایم این اے۔۔۔’، جس پر زرداری صاحب کے دوست نے استفسار کیا، ‘آپ کا مطلب کیا ہے؟’ اس پر انہوں نے کہا، ‘جب آپ میرا جواب وہاں پہنچائیں گے تو وہ سمجھ جائیں گے’۔
یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت آج سے زیادہ ڈرامائی صورتحال تھی، مگر اس وقت سیاست کا محور اور سورس اسکرینیں نہیں تھیں۔ سینہ بہ سینہ خبریں آتی تھیں۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ پنڈی کی چھری کی نوک پر سویلین اقتدار کے مستقبل کا انحصار تھا۔ مگر ایم کیو ایم کا شریفوں کا ساتھ دینے کے باوجود تحریک عدم اعتماد ناکام رہی، اور پیپلز پارٹی کو 12 ووٹوں کی سبقت حاصل ہوئی۔
اب یہ قصہ پارینا ہوا کہ پیسہ کہاں سے آیا کس کو کتنا ملا، مگر اسامہ بن لادن، حمید گل، اسحٰق خان کی پشت پناہی کے باوجود شریف ناکام ہوئے۔ لیکن اگست 91 کے آتے آتے ایک بار پھر اپنے اور پرائے ووٹرز بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے محروم کردیتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو جب کراچی واپس آئیں اور صحافیوں سے بلاول ہاؤس میں ملاقات کی تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا، ‘میری حکومت گرانے میں بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کا ہاتھ تھا’۔
اندازہ لگائیں کہ 30 سال پہلے انٹیلیجنس کے 2 افسر کتنے طاقتور تھے۔ آئندہ کبھی ان 2 کرداروں کے بارے میں تفصیل سے لکھوں گا کہ جو بڑے فخر سے برسوں یہ کہتے رہے کہ ہم نے جمہوریت کے مستقبل کے لیے کس طرح پیپلزپارٹی کا راستہ روکا۔
3 دہائی گزر گئی اور پلوں کے نیچے سے پانی ہی نہیں ناجانے کتنا خون بھی بہہ گیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنی باریاں لے چکیں مگر کپتان کو مدت پوری کرنے نہیں دی جا رہی۔ تحریک عدم اعتماد کا بگل بج چکا ہے۔ عمران خان نہ صرف ڈٹے ہوئے ہیں بلکہ دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد سے ایک دن پہلے وہ ڈی چوک پر 10 لاکھ لوگوں کے ساتھ مورچہ لگائیں گے جبکہ اپوزیشن اتحاد نے بھی 23 مارچ کی کال دے دی ہے۔
خدا خیر کرے، میں 3 دہائی بعد ایسی محاذ آرائی دیکھ رہا ہوں اور جب بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معرکہ آرائی اس سطح آجاتی تھی تو بوٹوں کی چاپ سنائی دینے لگتی تھی۔ ‘امپائر’ کتنا ہی نیوٹرل ہو یا نظر آئے، مگر کیا جمہوری نظام میں کہیں امپائر بھی ہوتے ہیں؟ یہ بدقسمت پاکستان ہی ہے کہ جہاں حکومت اور اپوزیشن تواتر سے برسرِ عام جلسوں میں امپائر کے نیوٹرل ہونے یا نہ ہونے کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔