پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ ٹھیکیداروں نے مہینوں پہلے لاگت میں اضافے کے باعث سرکاری فنڈ سے چلنے والے تمام ہاؤسنگ منصوبوں پر کام روک دیاہے، یہ پیش رفت بے گھر افراد کو گھر فراہم کرنے کے وزیر اعظم کے وژن کے لیے بڑا دھچکا ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری ہاؤسنگ ڈاکٹر عمران زیب نے کمیٹی کو فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی (ایف جی ای ایچ اے) اور پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی فاؤنڈیشن کے جاری منصوبوں پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور میں شروع ہونے والا ہاؤسنگ اسکیموں پر کام حکومت نے گزشتہ سال اگست میں سریے اور سیمنٹ کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کے بعد روک دیا تھا۔
سیکریٹری عمران زیب نے بتایا کہ سرکاری ہاؤسنگ منصوبوں پر تعمیراتی کام شیڈول کے مطابق جاری تھا لیکن اگست 2021 میں سریے کی قیمت ایک لاکھ 40 ہزار روپے فی ٹن سے بڑھ کر غیر معمولی اضافے کے بعد 2 لاکھ 10 ہزار روپے تک ہوگئی، انہوں نے مزید کہا کہ اسی عرصے کے دوران سیمنٹ کی قیمت میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا۔
اس غیر معمولی اضافے کے نتیجے میں ٹھیکیداروں نے اخراجات میں نظر ثانی کا مطالبہ کیا تھا، تاہم، کیونکہ بڑھے ہوئے چارجز پی اے سی اور پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے ساتھ ساتھ متعلقہ قواعد کے تحت مقرر کردہ حد سے کہیں زیادہ تھے، اس لیے ہاؤسنگ منسٹری نے ان کے مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔
ڈاکٹر عمران زیب نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل اور گورنمنٹ کنٹریکٹرز کی ایسوسی ایشن نے بھی وزیر اعظم کو خطوط لکھے جس میں موجودہ اخراجات پر کام جاری رکھنے سے قاصر رہنے کا اظہار کیا گیا، وفاقی کابینہ نے اس معاملے کا جائزہ لیا اور اسے پلاننگ کمیشن کے سپرد کردیا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پلاننگ کمیشن اس وقت اس بات پر غور کر رہا ہے کہ وزارت کیسے کنٹریکٹرز کو لاگت میں اضافے کے فرق کو ادا کر سکتی ہے۔
انہوں نے پی اے سی کو مزید بتایا کہ ٹھیکیدار اس وقت تک منصوبوں پر کام دوبارہ شروع نہیں کریں گے جب تک کہ کوئی ایسا قانونی حکم جاری نہیں کیا جاتا جو وزارت کو منصوبے کی لاگت میں ہونے والے اضافے کے فرق کو ادا کرنے کے قابل بنائے۔
چیئرمین پی اے سی رانا تنویر حسین نے ہاؤسنگ منصوبوں پر ہونے والی اس پیش رفت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جن ٹھیکیداروں نے کام روکا ہے ان کے ٹھیکے ختم کیے جانے چاہیے تھے اور جن لوگوں نے تعمیراتی کام روکا تھا انہیں بلیک لسٹ کیا جانا چاہیے۔
چیئرمین پی اے سی کے ریمارکس کے جواب میں ڈاکٹر عمران زیب نے جواب دیا کہ وہ ٹھیکوں کے خاتمے کے نوٹس دے چکے ہیں۔
رانا تنویر حسین کا کہنا تھا کہ ٹھیکے ایسے ٹھیکداروں کو دیے جانے چاہتے تھے جو اپنے وسائل سے کم از کم 25 فیصد کام کر سکتے جبکہ ٹھیکیدار عام طور پر حکومت کے فنڈز سے چلنے والے کسی بھی منصوبے پر اپنی جیب سے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان (اے جی پی) محمد اجمل گوندل نے پی اے سی کو بتایا کہ لاگت میں اضافے کی وجہ سے ہونے والے فرق کی ادائیگی کا طریقہ قوانین میں بیان کیا گیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ کہ تاخیر کی وجہ کوئی نہیں سمجھ سکتا، مزید تاخیر سے منصوبوں کی لاگت میں مزید اضافہ ہوگا۔
ہاؤسنگ سیکرٹری کا کہنا تھا کہ ٹھیکیداروں نے وزارت کو سریے اور سیمنٹ کی قیمت براہ راست بیچنے والے کو ادا کرنے کی پیشکش کی تھی۔
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ اسلام آباد کے جی۔13 میں ہاؤسنگ اتھارٹی کے کشمیر ایونیو اپارٹمنٹس منصوبے کی تکمیل نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا تھا، وزیراعظم نے اپریل 2019 میں اس منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔
انہوں نے منصوبے ک مقام کا اچانک دورہ کیا تھا اور اس وقت وہاں کوئی موجود نہیں تھا، اس کے بعد پروجیکٹ ڈائریکٹر کو وزیراعظم کو بریفنگ دینے کے لیے طلب کیا گیا تھا۔