سپریم کورٹ نے جام، جیلی، شربت اور چٹنیوں جیسی ناشتے کی اشیا بنانے والی کراچی کی کمپنی اور تاجروں کے درمیان ایک ٹریڈ مارک تنازع پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے جام، جیلی، شربت اور اسکواش بنانے والی کمپنی شیزان سروسز (پرائیویٹ) لمیٹڈ کی جانب سے لاہور میں ریسٹورنٹس اور بیکریوں کے مالک شیزان بیکرز اینڈ کنفیکشنرز (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے خلاف کی اپیل پر سماعت کی۔
سپریم کورٹ نے دونوں فریقین کو رجسٹریشن اور کارپوریشن وغیرہ کی اصل مصدقہ کاپیاں پیش کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
سپریم کورٹ میں میسرز شیزان سروسز (پرائیویٹ) لمیٹڈ کی نمائندگی ایڈووکیٹ سلطان احمد شیخ نے کی جبکہ میسرز شیزان بیکرز اینڈ کنفیکشنرز کی جانب سے ایڈووکیٹ حسن عرفان خان پیش ہوئے۔
اپیل کا تعلق 14 مئی 2018 کے سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی)کے فیصلے سے ہے جس میں عدالت نے اس آبزرویشن کے ساتھ درخواست مسترد کردی تھی کہ اگر یہ صرف استعمال کی اجازت کا معاملہ ہوتا تو اپیل کنندہ لفظ ’ٹریڈ مارک‘ کے مسلسل استعمال پر رائلٹی کا دعویٰ کرتا۔
سپریم کورٹ میں درخواست گزار نے اپنے وکیل کے توسط سے استدلال کیا کہ ’شیزان‘ ٹریڈ مارک شیزان سروس کا ہاؤس مارک ہے جو ابتدا سے جام اور جیلی وغیرہ کے لیے بین الاقوامی شہرت رکھنے والا ادارہ ہے اور پاکستان بھر میں ان مصنوعات کی تشہیر اور فروخت کرتا ہے، اس کے علاوہ وہ کئی سو ٹریڈ مارک کے مالک بھی ہیں جو پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں اور کچھ بیرون ملک رجسٹرڈ ہیں۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ شیزان لیبل کے ٹریڈ مارک کے ساتھ مسلسل اور وسیع پیمانے پر استعمال کی وجہ سے یہ پاکستانی مارکیٹ میں بہت مقبول ہو چکا ہے اور درحقیقت شیزان ٹریڈ مارک صرف ان ہی کے ساتھ منسلک ہے لیکن شیزان بیکرز نے مبینہ طور پر بیکری اور کنفیکشنری مصنوعات کے لیے ’شیزان‘ ٹریڈ مارک کی نقالی کی۔
بعد ازاں بیکرز نے ہر قسم کے پیٹیز، پنیر کے اسٹرا، چکن سینڈوچ، چکن اسپرنگ رولز، سبزیوں کے اسپرنگ رولز، فش رولز، فش کباب، پیزا، مچھلی، پولٹری، گوشت کے عرق، محفوظ، خشک اور پکے ہوئے پھل اور سبزیاں، جیلیاں، جام انڈے، دودھ اور اس سے بنی مصنوعات، خوردنی تیل، چکنائی اور سیلڈ ڈریسنگس پر ٹریڈ مارک شیزان لیبل کی رجسٹریشن کے لیے درخواست دی۔
درخواست کی جانچ ٹریڈ مارک رجسٹری کراچی کے ٹریڈ مارکس کے رجسٹرار نے کی اور اسے قبول کرلیا، جس پر درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ یہ غلط فیصلہ تھا۔
اس کے بعد بیکرز نے رجسٹرار ٹریڈ مارک کے سامنے 19 فروری 1975 کا ایک معاہدہ پیش کیا جس پر درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ یہ معاہدہ ان کی جانب سے نہیں کیا گیا تھا بلکہ کسی تیسرے فریق کو لاہور میں 2 ریسٹورنٹس (اورینٹل ریسٹورنٹ اور کانٹی نینٹل ریسٹورنٹ) چلانے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن بیکرز کو ہرگز کوئی حق نہیں دیا گیا تھا، جس کا دعویٰ ان کی جانب سے کیا جارہا ہے۔
بعد ازاں ٹریڈ مارکس کے رجسٹرار نے درخواست گزار کی طرف سے کی گئی درخواست کو مسترد کر دیا اور ایس ایچ سی نے اس کی تائید کی۔
دوسری جانب حسن عرفان خان نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1975 سے لے کر اب تک اس کے استعمال کے دوران درخواست گزاروں نے بیکرز کی جانب سے لیبل کے آزادانہ اور مسلسل استعمال پر کبھی اعتراض نہیں کیا، ساتھ ہی لاہور میں اضافی ریستوران یا بیکریاں وغیرہ کھولنے پر بھی اپیل کنندہ نے کوئی مخالفت نہیں کی تھی۔