قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو پابند کیا ہے کہ قبضے سے چھڑوائی گئی اربوں روپے کی جائیدادوں میں ملوث ملزمان کے خلاف بے ضابطگیوں کی تحقیقات کریں، یہ تحقیقات سپریم کورٹ کے حکم پر کی جائے گی۔
نجی اخبار کی رپورٹ مذکورہ بے مثال پیش رفت آڈٹ رپورٹ کو حتمی شکل دینے سے متعلق پی اے سی کے خصوصی اجلاس میں سامنے آئی، وزارت مذہبی امور کے سینئر عہدیدار کی درخوات پر چیئرمین ایف آئی اے نے ادارے کو آڈٹ رپورٹ بنانے کی ہدایت دی تھی اراکین کے سامنے بھی پیش نہیں کی گئی تھی۔
گزشتہ سال مارچ میں سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو حکم دیا تھا کہ ضبط شدہ جائیداد واپس حاصل کریں اور قبضہ کرنے والوں اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کریں۔
عدالت عظمیٰ نے ہدایت آڈیٹر جنرل پاکستان (اے جی پی ) کو بھی ہدایت دی تھی کہ 1947 سے اب تک قبضہ کی گئی تمام جائیدادوں کا فرانزک آڈٹ کریں۔
اے جی پی کی جانب سے 60 ہزار جائیدادیں خالی کرائی گئی جائیدادوں کو آڈٹ کیا جا چکا ہے جبکہ ایف آئی اے قبضہ مافیا اور متروکہ وقف املاک بورڈ (ای ٹی پی بی) کے عہدیداران کے خلاف 40 مقدمات درج کر چکا ہے۔
آڈیٹرز کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو عبوری رپورٹ پیش کی جاچکی ہے۔
سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں اے جی پی نے نشاندہی کی ہے کہ زراعت کی 54 ارب 61 کروڑ مالیت کی 67 ہزار 399 ایکڑ اراضی میں 318 بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں، جس میں ای ٹی پی بی ہیڈ کوارٹر کا تیار کردہ غیر مستند ریکارڈ، غیر قانونی قبضے، خریداری و تبادلے، کرائے، اور لیز کی رقم حاصل نہ ہونے جیسی بے ضابطگیاں شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ای ٹی پی بی کی 26 ارب 40 کروڑ مالیت کی 8 ہزار 266 ایکڑ زمین کی حوالے سے کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
آڈٹ میں نشاندہی کی گئی کہ بد انتظامی کی وجہ سے قومی خزانے کو 2 ارب 40 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔
غیر معمولی اجلاس
پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے آڈٹ رپورٹ مکمل نہ ہونے کے باوجود بھی ای ٹی پی بی کے معاملے پر غور و خوض کے لیے ایک اجلاس طلب کیا۔
قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے مطابق پی اے سی کے سامنے معاملات پیش کرنے کا ایک طریقہ کار ہے، زیادہ تر کیسز میں اے جی پی اپنی رپورٹ صدر کو جمع کرواتا ہے، جو بعدازاں یہ پارلیمنٹ کے حوالے کرتا ہے،جس کے بعد رپورٹ پی اے سی کو بھیجی جاتی ہے تاکہ معاملے کی مناسب جانچ پڑتال کی جائے۔
ابتدائی طور پر پی اے سی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا، تاہم پی اے سی سیکریٹری کی جانب سے آڈٹ رپورٹ کے کچھ پیراگراف جو ابھی تک حتمی شکل میں نہیں آئے ہیں، سے متعلق بحث کے لیے 28 جنوری کا سرکلر جاری کیا گیا تھا۔
اس سے قبل کمیٹی کے سامنے کو دستاویزات پیش نہیں کی گئیں، اس موقع پر کچھ اراکین کی جانب سے قبل از وقت اجلاس بلانے پر سوال بھی اٹھائے گئے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ رپورٹ کا تجزیہ کیے بغیر اراکین سے کس طرح سوال کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اے جی پی محمد اجمل گوندل کا کہنا تھا کہ قواعد کے مطابق آڈٹ رپورٹ صرف پی اے سی کے سامنے پیش کی جاسکتی ہے۔
ڈائریکٹر جنرل آڈٹ طارق محمود کوریجا نے کمیٹی کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے ڈاکٹر شعیب سدل پر مشتمل ایک رکنی کمیشن تشکیل دیا ہے آڈیٹر ان کے ذریعے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے احکامات ہیں یہ ایف آئی اے ان کے خلاف کارروائی کے جو ای ٹی پی بی کی جائیداد پر قبضے میں ملوث ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایڈیٹرز کی جانب سے فزانزک رپورٹ تیار کرنے کے مرحلے میں اب تک 776 سنجیدہ بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی جاچکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایڈیٹر 30 ہزار جائیدادوں کے ریکارڈ کا جائزہ لے چکے ہیں اور 60 ہزار جائیدادوں کے فرانزک آڈٹ میں 2 ماہ سے زائد عرصہ درکار ہوگا۔
تاہم، مذہبی امور کے سیکرٹری سردار اعجاز احمد خان نے کمیٹی کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد، ایف آئی اے چھاپے مار رہی ہے اور ای ٹی پی بی کے اہلکاروں کو گرفتار کر رہی ہے، جنہوں نے ایف آئی اے کے مبینہ ہراساں کیے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں سول متفرق درخواست (سی ایم اے) دائر کی تھی، جو کہ ہے۔ ابھی تک اٹھایا جانا ہے.
اس موقع پر، ای ٹی پی بی کے ایک اہلکار نے چیئرمین کو مشورہ دیا کہ وہ ایف آئی اے کو ہدایات جاری کریں کہ آڈٹ مکمل ہونے تک بورڈ حکام کے خلاف کارروائی روک دی جائے، اور یہ دعویٰ کیا کہ آڈٹ مکمل ہونے کے بعد پی اے سی معاملہ ایف آئی اے یا قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیج سکتا ہے۔
بظاہر اس تجویز پر قائل ہو کر پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے ایف آئی اے حکام سے کہا کہ وہ ای ٹی پی بی کے اہلکاروں کے خلاف کارروائی نہ کریں۔
اس کی مخالفت پی ٹی آئی کی ایم این اے منزہ حسین نے کی جنہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔ انہوں نے سوال کیا کہ پی اے سی سپریم کورٹ کے حکم پر شروع کی گئی انکوائری کو کیسے روک سکتی ہے۔
لیکن چیئرمین نے انہیں بتایا کہ چونکہ ایک سی ایم اے پہلے ہی دائر کیا جا چکا ہے اور ایف آئی اے نے درخواست پر حکم کا انتظار کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، اس لیے پی اے سی کے لیے ایسی ہدایات دینا مناسب ہے۔
اس کے بعد انہوں نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ فرانزک آڈٹ مکمل ہونے تک انتظار کیا جائے اور آڈٹ حکام کو دو ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔