پاکستان کو امید ہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آئندہ دو ہفتوں میں واشنگٹن کے لیےپاکستان کے نئے سفیر کا ایگریمنٹ منظور کرتے ہوئے دستاویزات پاکستان بھیج دے گا۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سفارتی گفتگو میں ’ایگریمنٹ‘ دو ممالک کے درمیان اس معاہدے کو کہا جاتا ہے جس کے تحت سفارتی اراکین کا استقبال کرتے ہوئے انہیں سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، اور میزبان حکومت عموماً تین ماہ میں دستاویزات منظور کرتی ہے۔
واشنگٹن میں واقع پاکستانی سفارت خانے نے مسعود خان کا ایگریمنٹ نومبر میں امریکی محکمہ خارجہ کو جمع کروایا تھا۔
سفارت خانے کے عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ مسعود خان کا ایگریمنٹ منظور کرنے کا مرحلہ جاری ہے اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ممکنہ طور 2 سے 3 ہفتوں میں اسے منظور کرکے واپس بھیج دے گا۔
رواں ہفتے کے آغاز میں پنسلیوانیا سے کانگریس کے رکن اور ریپبلکن قانون ساز اسکاٹ پیری نے صدر جوبائیڈن کو خط لکھا جس میں مطالبہ کیا کہ پاکستان کے نئے سفیر کے طور پر مسعود خان کی نامزدگی مسترد کی جائے۔
اسکاٹ پیری نے خط میں دعویٰ کیا کہ محکمہ خارجہ نے مسعود خان کی نامزدگی سے متعلق کی پاکستان کی درخواست منظور کرنے میں ’تاخیر‘ کی ہے۔
تاہم محکمہ خارجہ نے اسکاٹ پیری کے دعوے کے حوالے سے کسی بھی بحث میں پڑنے سے انکار کردیا۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ’ سفارتی معاملات کے طریقہ کار کے باعث ہم غیر ملکی حکومتوں کی جانب سے دی گئی درخواستوں کے بارے میں تبصرہ نہیں کرسکتے‘۔
اسکاٹ پیری کاکہنا تھا کہ ’میں محکمہ خارجہ کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے مسعود خان کی پاکستان کے نئے سفیر کے طور پر نامزدگی کوکچھ دیر کے لیے روک دیا لیکن یہ وقفہ کافی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ مسعود خان کی جانب سے پیش کی گئی سفارتی دستاویزات کو مسترد کرتے ہوئے ’جہادی‘ کو پاکستان کا سفیر مقرر کرنے کے حوالے سے حکومت پاکستان کے تمام اقدامات نا منظور کیے جائیں۔
تاہم، پاکستانی سفارتخانے نے مسعود خان کے خلاف بے بنیاد الزامات مسترد کرتے ہوئے کہاکہ یہ بھارت کی پاکستان اور اس کی نمائندگی کرنے والوں کے خلاف وسیع پیمانے پر غلط اطلاعات کی پھیلانے کی مہم کا ایک حصہ ہے، مکروہ دعووں اور بے بنیاد الزامات کے لیے غلط خبروں کا استعمال کیا جارہا ہے۔
سفارتخانے سے جاری کر بیان میں نشاندہی کی گئی کہ ’مسعود خان ایک تجربہ کار سفارتکار ہیں انہیں کثیر الاضلاع اور دو طرفہ سفارتکاری کا 40 سالہ تجربہ حاصل ہے‘۔
مسعود خان 1980 میں فورن سروس شامل ہوئے اور ریٹائرمنٹ سے قبل پاکستان کے سفیر کے طور پر اقوام متحدہ، بین الاقوامی تنظیم جینیوا، چین، اور اقوام متحدہ نیویارک میں خدمات انجام دیں۔
مسعود خان نے آزاد کشمیر کے صدر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں اور یہ عہدہ بھارت کے لیے باعث پریشانی ہے۔
پاکستانی سفارت خانے نے نشاندہی کی کہ مسعود خان کی نامزدگی کے خلاف رپورٹ سب سے پہلے بھارتی میڈیا پر شائع کی گئی اور بعد ازاں نئی دہلی میں واقع بھارتی میڈیا کے ایک آؤٹ لیٹ سے تقسیم کی گئی۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ’ واشنگٹن میں موجود بھارتی میڈیا کی جانب سے بھی اسے نظر انداز کیا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جنہوں نے رپورٹ جاری کی وہ وضاحت کے لیے امریکا سے رابطہ نہیں کرنا چاہتے‘۔
عہدیدار کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے مسعود خان کی نامزدگی کے خلاف ایک بڑی مہم کا آغاز کیا گیا ہے، یاد رہے ان کے نام کا اعلان گزشتہ سال کے اختتام میں کیا گیا تھا۔
واشگٹن میں سابق پاکستانی سفیر کا کہنا ہے کہ صرف ایک کانگریس کے رکن کی جانب سے لکھا گیا خط انتظامیہ کو سفیر کی نامزدگی مسترد کرنے پر قائل نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کے عمل کے لیے مضبوط شواہد درکار ہیں تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ مسعود خان کا تقرر امریکی مفاد کو متاثر کر سکتا ہے‘۔