لاہور: (آئی این این) پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جولائی میں پاکستان واپس جاؤں گا، فی الحال تیاریوں میں مصروف ہوں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اگلے ماہ (میرا) پاکستان واپسی کا ارادہ تقریباً کنفرم ہے۔ میری کی صحت کو درپیش چند مسائل کا علاج اگلے 12 روز میں مکمل ہونے کی توقع ہے، ڈاکٹرز اگلے چند روز میں اُن کے علاج کے مکمل ہونے کے بارے میں پُرامید ہیں۔
پاکستان میں کیسوں اور ضمانت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں لیگی سینیٹر نے کہا کہ اُن پر پاکستان میں ایک ہی کیس ہے جو عمران نیازی کی جانب سے دائر کیا جانے والا جعلی مقدمہ ہے۔مجھ پر جعلی کیس بنایا گیا اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ میرے ٹیکس ریٹرن پر بنایا گیا۔ ایسا شخص ہوں جو ٹیکس ریٹرن جمع کرانے میں کبھی تاخیر نہیں کرتا۔
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کی جانب سے جب پاکستان لانے کے لیے انٹر پول سے رابطہ کیا گیا تو جو دستاویزات انٹرپول کو دی گئیں ان میں کوئی جان ہی نہیں تھی، اس لیے انٹر پول نے مجھے کلین چٹ دی۔
حکومت کی معاشی پالیسیوں میں ان کے ممکنہ کردار اور وزیر خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان واپسی پر بطور سینیٹر حلف اٹھائیں گے۔ وزیر خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کا فیصلہ اُن کا نہیں ہو گا بلکہ یہ اُن کی پارٹی اور قیادت کا فیصلہ ہو گا کہ کس شخص کو کیا ذمہ داری دینی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی جلد وطن واپسی کا امکان
یاد رہے کہ جب پانامہ گیٹ سکینڈل میں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو اس کے ساتھ اسحٰق ڈار بھی وزارت خزانہ سے ہاتھ دھو بیٹھے تاہم شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں بننے والی نواز لیگ کی حکومت میں وزیر خزانہ کا قلمدان ملا ۔
ستمبر 2017 میں احتساب عدالت نے ان پر کرپشن کیس میں فرد جرم عائد کی جس میں ان پر آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کا الزام تھا۔ اسی دوران ڈار سعودی عرب روانہ ہوئے اور وہاں سے علاج کے لیے برطانیہ روانہ ہو گئے۔
نومبر 2017 میں احتساب عدالت نے اُن کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے اور پھر انھیں اسی کورٹ نے ’مفرور‘ قرار دے دیا۔ لندن میں قیام کے دوران ہی انہوں نے وزارت خزانہ کا قلمدان چھوڑ دیا۔ احستاب عدالت نے ان کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی نیلامی کا بھی حکم دیا تھا۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما کے خلاف مختلف مقدمات ہیں، جن میں خاص طور پر ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے اثاثہ جات کی 22 سالہ تفصیلات جمع نہیں کرائیں۔