فضائی آلودگی کے باعث عالمی سطح پر ہر انسان کی اوسط عمر اور زندگی کی متوقع مدت میں دو سال کی کمی ہو گئی ہے۔
یونیورسٹی آف شکاگو کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے سامنے آنے والی ایک نئی رپورٹ کے مطابق، فضائی آلودگی ہر شخص کے لیے عالمی متوقع زندگی میں 2.2 سال کی کمی کا سبب بن رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق آلودگی کے باعث بننے والی یہ صورت حال ایڈز، سگریٹ نوشی یا دہشت گردی کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہے۔
رپورٹ کے مطابق سگریٹ کا دھواں اوسطاً متوقع زندگی میں 1.9 سال کو کم کرتا ہے۔ شراب نوشی اور منشیات کا استعمال اوسطاً نو ماہ تک متوقع عمر کم کرتا ہے۔
غیر محفوظ پانی اور صفائی ستھرائی سے سات ماہ، ایچ آئی وی اور ایڈز سے متوقع عمر چار ماہ، ملیریا سے اوسطاً تین ماہ، اور تنازعات اور دہشت گردی سے متوقع عمر سات دن تک کم ہو جاتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فضائی آلودگی ان تمام چیزوں سے بہت زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس سے بچنا ناممکن ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے زیادہ خطر ناک ہے جو آلودہ جگہوں پر رہتے ہیں۔
اگرچہ تمباکو نوشی چھوڑنا یا بیماریوں کے خلاف احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ممکن ہے ۔ لیکن ہر ایک کو ہوا میں سانس لینا ہی ہے۔اس طرح، فضائی آلودگی ان دیگر حالات کے مقابلے بہت زیادہ لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی 97 فیصد آبادی ان علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں آلودگی کی سطح مقررہ معیار سے کہیں زیادہ ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے رہائشیوں نے سموگ کی وجہ سے اپنی زندگی کے پانچ سال کھو دیے ہیں جبکہ انڈیا کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہاں 2013 کے بعد سے فضائی آلودگی 44 فیصد بڑھی ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
تحقیق کے مطابق اگر چین عالمی ادارہ صحت کے معیار تک پہنچ جاتا ہے تو وہاں کی اوسط عمر دو اعشاریہ چھ سال بڑھ سکتی ہے۔
چین وہ ملک ہے جہاں 2013 سے متوقع اوسط میں عمر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ اس نے آلودگی کے خلاف جنگی بنیادوں پر کام شروع کیا تھا اور پی ایم دو اعشاریہ پانچ کو 40 فیصد تک کم کر دیا تھا۔
ای پی آئی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر عالمی سطح پر پی ایم 2.5 کی سطح پانچ مائیکروگرام فی کیوبک میٹر تک نیچے آ جائے جو کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منظورشدہ ہے، تو اوسط متوقع عمر میں دو اعشاریہ دو سال کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
ای پی آئی سی کے ڈائریکٹر برائے ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کریسٹا ہیسنکوف کا کہنا ہے کہ ’اب آلودگی کے حوالے سے معلومات میں بہتری آئی ہے اور یہ حکومتوں کے لیے ایسا معاملہ ہے جس کو فوری طور پر ترجیح دینی چاہیے۔