سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کا کہنا ہے کہ معاشی بدحالی کے سبب خدشہ ہے کہ ملک میں سری لنکا جیسی صورتحال نہ ہو جائے۔
سابق وزیراعظم نے نجی ٹی وی چینل ’92 نیوز‘ پر ڈاکٹر معید پیرزادہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ معاشی حالات میں مجھے خطرہ ہے کہ ملک اس مقام ہر پہنچ جائے گا جہاں سے اس کو کوئی واپس نہیں لا سکے گا۔
حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر بارودی سرنگیں بچھانے کے الزام سے متعلق سوال پر عمران خان نے کہا کہ یہ حکومت معیشت ٹھیک کرنے یا مہنگائی کم کرنے آئی ہی نہیں تھی، یہ ہماری حکومت کو نااہل کہتے تھے لیکن حکومت میں آتے ہی انہوں نے جس انداز میں معاملات کو سنبھالا اس سے واضح ہوگیا کہ ان کے پاس کوئی منصوبہ بندی یا حکمت عملی نہیں تھی۔
انہوں نے کہا مجھے نہیں معلوم یہ ملک کو کس حالت میں چھوڑ کر جائیں گے، ابھی تو عشق کے امتحان اور بھی ہیں، ابھی تو ملک مزید نیچے جارہا ہے، خوف ہے کہ ہے کہ یہ ملک سری لنکا کی طرح نہ بن جائے، نیشنل سیکیورٹی رسک نہ بن جائے، پھر ہمیں بیل آؤٹ کرنے کے لیے ایسے ایسے کام کروائے جائیں گے کہ جس سے ہمارے ملک کی سیکیورٹی اور مستقبل تباہ ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ان کا حکومت میں آنے کا مقصد محض اپنے خلاف کرپشن کیسز ختم کرنا تھا، انہوں نے نیب اور ایف آئی اے کو ختم کردیا، ایف آئی میں تو یہ خطرناک چیزیں بھی ہورہی ہیں کہ ان کے خلاف تحقیقات کرنے والے اور گواہ ہارٹ اٹیک سے مررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ لوگ این آر او 2 لینے کے چکر میں ملک کے سارے ادارے تباہ کردیں گے اور صرف عدلیہ رہ جائے گی، ججز ان کے کہنے پر نہیں چلتے۔
قومی اسمبلی نہ جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب کسی ملک کے ساتھ اتنی بڑی واردات ہوئی ہو اور بیرونی مداخلت واضح ہوچکی ہو تو اس سب کے بعد ہم ان غداروں کو قبول کرکے اسمبلی میں کیسے جاسکتے ہیں؟ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں ہم اس لیے موجود ہیں کیونکہ وزیراعظم قومی اسمبلی کے ذریعے آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں مفتاح اسمعٰیل اور چیری بلاسم سے سوال کرتا ہوں کہ اگر آپ ملک کے سنبھال نہیں سکتے اور ملک کے حالات سے ناواقف تھے تو اتنی سازش کرکے حکومت کو کیوں نکالا؟ ہمارے دور میں معیشت تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی لیکن موجودہ حکمرانوں نے ملک کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اور شوکت ترین نے نیوٹرلز کو آگاہ کیا تھا کہ اس وقت جو سازش ہورہی ہے اگر یہ کامیاب ہوگئی تو معیشت غیرمستحکم ہوجائے گی اور ایسا ہی ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں پیٹرول 150 روپے کا تھا جوکہ آج 210 تک پہنچ گیا ہے، اب عوام تیاری کرلیں کیونکہ یہ جو بجٹ لے کر آئے ہیں اس کے بعد یہ 270 تک جائے گا، ہمارے ساڑھے 3 سال میں اتنی مہنگائی نہیں ہوئی جو انہوں نے 2 ماہ میں کردی ہے۔
’لگتا ہے حکومت نے ایک عارضی بجٹ دیا ہے‘
سابق وزیراعظم نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ حکومت نے یہ ایک عارضی بجٹ دیا ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ یہ زیادہ عرصہ ٹھہر نہیں سکتے، یہ صرف ڈیڑھ 2 مہینے نکالنا چاہ رہے ہیں جب تک ان پر سارے کیسز ختم ہوجائیں، دھاندلی کی پوری طرح تیاری کرلیں اور ہم پر سارے کیسز اور ایف آئی آر کردیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب قوانین میں تبدیلیوں، الیکٹرانک ووٹنگ اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹنگ کے حق کے معاملے پر ہم عدالت جارہے ہیں۔
لانگ مارچ کی حکمت عملی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پہلے ہم سپریم کورٹ سے پرامن احتجاج کی اجازت لیں گے اس کے بعد اعلان کریں گے، مہنگائی سمیت تمام مسائل کی موجودگی میں اگر ہمیں احتجاج کی اجازت نہیں ملتی تو پھر کہہ دیں کہ اس ملک میں جمہوریت ختم ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا یہ صورتحال عدلیہ اور نیوٹرلز کے لیے بڑا چیلنج بن چکی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ جمہوری قدروں پر قائم یہ ادارے بنیادی حقوق کا تحفظ کریں گا یا نہیں۔
عمران خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن سمیت دیگر اداروں میں بھی اہم تعیناتیاں کی جارہی ہیں، پنجاب پولیس میں بھی بڑے پیمانے پر تبادلے ہورہے ہیں، اہم تعیناتیوں، تقرروتبادلوں کا واحد مقصد الیکشن چوری کی تیاری ہے، ہمیں معاملات کا اندازہ ہے اور مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار ہیں۔
’عسکری قیادت نے مجھ سے کہا کہ ہمیں روس سے ہتھیار چاہیے‘
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ مغرب کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا، آپ جتنا ان کے پاؤں میں گریں گے وہ مزید حقارت سے آپ کو دیکھیں گے، آپ جتنا ان کے قدموں میں لیٹیں گے وہ آپ کا مزید فائدہ اٹھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ لُو جیسا عام سا افسر پاکستانی سفیر کو دھمکیاں دیتا ہے اور اس کی دھمکی کے بعد سازش کامیاب ہو بھی گئی، میں جانتا ہوں کہ ان کی اتنی جرأت نہیں ہے کہ کسی چھوٹے سے ملک کو بھی اس طرح دھمکی دے سکیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پاکستان کے دیگر ممالک سے تعلقات صحیح نہیں تھے، چینی صدر سے سب سے اچھے تعلقات میرے تھے، دفتر خارجہ نے مجھے سے بار بار کہا کہ ہمارے روس سے تعلقات نہیں ہیں آپ کوشش کریں، مجھ سے عسکری قیادت نے کہا کہ ہمیں روس سے ہتھیار چاہیے، میں خود تو روس نہیں گیا تھا، لیکن جب ہمارے روس سے تعلقات اچھے ہونے لگے تو انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ امریکا کو ناراض کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ڈونلنڈ ٹرمپ کے ساتھ میرے بڑے اچھے تعلقات تھے، بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ہچکچاہٹ کی وجہ ان کی افغانستان میں ہونے والی سبکی تھی جہاں وہ پھنس گئے تھے اور دنیا بھر سے انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔