عالمی سطح پر چاول کی مانگ بڑھنے سے پاکستان کو فائدہ ہوگا، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے اپنی رپورٹ ‘ورلڈ فوڈ آؤٹ لک’ میں کہا ہے کہ ایشیا کے علاوہ دنیا کے تمام خطوں سے چاول کی مانگ میں اضافے کی بدولت پاکستان کو 2022 میں بہتر قیمت مقرر کرنے میں فائدہ ہونے کا امکان ہے۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں چاول کی بین الاقوامی تجارت میں 2022 میں مسلسل تیسرے سال بھی اضافے کا امکان ہے جو کہ 2021 سے تین فیصد زیادہ ہے اور حجم 5 کروڑ 31 لاکھ ٹن ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے برازیل، چین، پاکستان، یوراگوئے اور خاص طور پر تھائی لینڈ کے جہازوں کو فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔

رپورٹ میں بھارت کے دنیا میں چاول کے سب سے بڑے برآمد کنندہ رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

پاکستان میں 21-2020 کے دوران چاول کی ریکارڈ بلند پیداوار 93 لاکھ 23 ہزار ٹن تھی جو گزشتہ سال کی 84 لاکھ 20 ہزار ٹن کی پیداوار کے مقابلے میں 10.7 فیصد زیادہ ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو برسوں سے چاول کی کاشت کے رقبے میں اضافہ کا رجحان سامنے آیا ہے، چونکہ ملک میں چاول کی پیداوار سالانہ ضرورت سے زیادہ ہے اس لیے ملک میں برآمدات کے لیے اضافی چاول دستیاب ہوتا ہے۔

گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے فوڈ ایگریکلچر منظرنامے کی دو سالہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سال 23-2022 میں چاول کے کل استعمال کا تخمینہ 52 کروڑ 20 لاکھ ٹن ہے جو کہ 22-2021 کی بلند ترین سطح سے زیادہ ہے کیونکہ کھانے کی مقدار میں توسیع کی پیش گوئی کی گئی ہے کہ زیادہ تر غیر خوراکی استعمال میں کمی کی وجہ سے اس کا وزن بڑھنے کا امکان ہے۔

چاول کے استعمال کے حوالے سے اس پیش گوئی کے حجم کو پورا کرنے کے لیے چاول کی عالمی مانگ کو کم کرنے کی ضرورت ہوگی اگرچہ وہ 8 لاکھ ٹن کی چھوٹی مقدار ہی کیوں نہ ہو۔

رپورٹ کے مطابق اس سے چاول کا عالمی ذخیرہ 19 کروڑ 16 لاکھ ٹن ہو جائے گا جو کہ دوسری بلند ترین سطح ہے جس کی بڑی وجہ چین اور بھارت میں جمع ہونے والا چاول ہے۔

چاول کی بین الاقوامی قیمتوں میں 2022 کے شروع سے مسلسل اضافہ ہوا ہے جو کہ جاپانیکا اور خوشبودار شعبوں کی طرف سے درآمدی طلب اور سپلائی کی رکاوٹوں کے دوران پیدا ہوا ہے۔

2022 کا موسم اب خط استوا کے جنوب میں اچھی طرح سے آگے بڑھ چکا ہے جہاں موسم کی پہلی فصل کی کٹائی ہو چکی ہے جبکہ شمالی خط استوا میں 2022 فصلوں کی بوائی اب شروع ہوئی ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ خاص طور پر لا نینا کے طویل حالات کے تناظر میں بہت کچھ موسمی تبدیلیوں پر منحصر ہوگا۔

ایف اے او نے 2022 میں چاول کی عالمی پیداوار کے لیے اپنی ابتدائی پیشن گوئی 51 کروڑ 95 لاکھ ٹن کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں 2021 کے مقابلے میں 14 لاکھ ٹن کی معمولی کمی ہوئی ہے۔

ایشیا، جو کہ دنیا میں چاول کی پیداوار کا مرکز ہے، اس میں توقع کی جاتی ہے کہ وہ مثبت پیداوار کے نتائج برقرار رکھے گا۔

عام طور پر مون سون بارشوں کی پیش گوئی سے خطے میں چاول کی پیداوار کو تقویت ملتی ہے، اس کے علاوہ متبادل فصلوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اس شعبے کو زمین کے لیے زیادہ شدید مسابقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایشیائی چاول کی کاشت بڑے پیمانے پر غیر محفوظ ہونے کا امکان ہے کیونکہ غذائی تحفظ میں چاول کا اسٹریٹیجک کردار اس شعبے کو مضبوط حکومتی امداد فراہم کرتا ہے۔

آبپاشی کے لیے پانی کے محدود وسائل، عراق، ایران، پاکستان کے لیے تشویشناک صورتحال پیدا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پیداوار جنوبی کوریا اور جاپان میں بھی گرتی نظر آ رہی ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس کے باوجود بھی ایشیا میں سری لنکا اور میانمار میں سب سے زیادہ پیداوار میں کمی کی پیش گوئی کی گئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وسیع تر اقتصادی رکاوٹوں کے پیش نظر اشیا کی قلت اور ناقابل رسائی آدانوں کا اس سال پیداوار کے امکانات پر بہت زیادہ اثر ہے۔

اقوام متحدہ کے منظرنامے کے مطابق عالمی چاول کے استعمال میں 21-2020 کے بعد سے تقریباً دو فیصد کی تیز رفتار سالانہ شرح میں توسیع ہوئی ہے کیونکہ ریاستی امدادی پروگراموں میں توسیع غریب صارفین کو وبائی امراض کے اثرات سے نمٹنے میں مدد کر رہی ہے جو کہ جانوروں کے کھانے کے لیے چاول استعمال کر رہے ہیں۔

تاہم سال 23-2022 کے موسم میں یہ توقع کی جا رہی ہے کہ چاول کی کھپت میں اضافے کا امکان ہے اور چاول کا استعمال 22-2021 کے ریکارڈ حجم سے 0.2 فیصد کے مارجن سے بڑھ کر 52 کروڑ 2 لاکھ ٹن تک پہنچنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ خوراک کا عالمی درآمدی بل اس سال 1800 ارب ڈالر کے نئے ریکارڈ تک پہنچنے والا ہے لیکن حجم کے بجائے زیادہ قیمتیں اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

عالمی خوراک کے درآمدی بل میں 2021 سے 51 ارب ڈالر کا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے جس میں سے 49 ارب ڈالر زیادہ قیمتوں کی عکاسی کرتا ہے۔

عالمی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ فوڈ سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے یہ خطرناک علامات ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ درآمد کنندگان کو بڑھتی ہوئی بین الاقوامی لاگت کے لیے مالی اعانت فراہم کرنا مشکل ہو جائے گا جو ممکنہ طور پر زیادہ قیمتوں پر ان کی لچک ختم ہونے کا اشارہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں