الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف اراکین پنجاب اسمبلی کی نااہلی کے خلاف دائر ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے، جو کل 12 بجے سنایا جائے گا۔
الیکشن کمیشن کے سربراہ سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 3 رکنی بینج نے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے خلاف دائر ریفرنس کی سماعت کی۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز 197 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے 21ویں وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے جبکہ حریف امیدوار پرویز الہٰی کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی نے ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کیا تھا۔
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہٰی نے منحرف اراکین کے خلاف الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے ریفرنس میں منحراف اراکین اسمبلی کو نااہل قرار دینے کی درخواست کی تھی کیونکہ انہوں نے پارٹی لائن کے خلاف حمزہ شہباز کو ووٹ دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے منحرف صوبائی اراکین اسمبلی میں راجا صغیر احمد، ملک غلام رسول، سعید اکبر خان، محمد اجمل، عبدالعلیم خان، نذیر احمد چوہان، محمد امین ذوالقرنین، ملک نعمان لنگڑیال، محمد سلمان، ذوار حسین وڑائچ، نذیر احمد خان، فدا حسین، زہرا بتول، محمد طاہر، عائشہ نواز، ساجدہ یوسف، ہارون عمران گل، عظمیٰ کاردار، ملک اسد علی، اعجاز مسیح، محمد سبطین رضا، محسن عطا خان کھوسہ، میاں خالد محمود، مہر محمد اسلم اور فیصل حیات شامل ہیں۔
پرویز الہٰی نے ریفرینس میں بتایا تھا کہ پی ٹی آئی کی ہدایات کے خلاف 25 اراکین صوبائی اسمبلی نے حمزہ شہباز کو ووٹ کاسٹ کیا تھا، جس کے بعد ایم پی ایز کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا جبکہ منحرف اراکین نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
آج سماعت کے دوران 10 منحرف اراکین کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل خالد اسحٰق نے دلائل دیے کہ منحرف اراکین کو یکم اپریل کے پارلیمانی پارٹی اجلاس کا دعوت نامہ ملا نہ ہی ایجنڈا دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف 2 اراکین کو 7 اپریل کو شوکاز نوٹس ملا، اس کے علاوہ دیگر کسی بھی رکن کو کوئی نوٹس نہیں ملا۔
خالد اسحٰق نے کہا کہ 18 اپریل کو جو ڈیکلریشن بھجوایا گیا تھا اس کی کاپی بھی اراکین کو نہیں ملی اور اراکین کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا بھی کوئی موقع نہیں دیا گیا۔
الیکشن کمیشن نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات یا فیصلہ کہیں نہیں ہے۔
وکیل خالد اسحٰق نے مؤقف اپنایا کہ پارلیمانی پارٹی اجلاس سے متعلق بعد میں ایک جعلی دستاویز بنائی گئی، اور عمران خان روزانہ اراکین اور الیکشن کمیشن کی تضحیک کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے ٹھیک کہا ہے کہ فلور کراسنگ سرطان ہے، تاہم ‘پارٹی ڈکٹیٹرشپ’ بھی سرطان ہے۔
انہوں نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ اگر پارٹی چیئرمین کی ہدایات کو درست مان بھی لیا جائے تب بھی نااہلی نہیں بنتی کیونکہ پرویز الہٰی کو ووٹ دینے اور ووٹنگ کے دن غیر حاضر نہ رہنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پرویز الہی نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تو ارکان ووٹ دینے کے لیے آزاد تھے جبکہ پارٹی چیئرمین نے کہیں ہدایت نہیں کی کہ بائیکاٹ کی صورت میں مخالف امیدوار کو ووٹ نہیں دیا جائے۔
منحرف رکن عائشہ نواز کے وکیل جاوید ملک نے خالد اسحٰق کے دلائل اختیار کرتے ہوئے بتایا کہ جواب الجواب کے ساتھ عمران خان کے اتھارٹی لیٹر پر دستخط جعلی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ ریفرنسز عمران خان نہیں بھجوانا چاہتے تھے۔
جاوید ملک نے بتایا کہ پرویز الہٰی کو الیکشن میں شکست ہوئی اور وہ متاثرہ پارٹی ہیں جبکہ پرویز الہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی جمع تھی۔
الیکشن کمیشن کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے رکن نے استفسار کیا کہ کیا تحریک عدم اعتماد کے ہوتے ہوئے اسپیکر ریفرنس بھجوا سکتے تھے؟
تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے دلائل
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کہا گیا کہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات نہیں تھیں جبکہ آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کا صرف ذکر ہے تفصیل بیان نہیں کی گئی، پارٹی سربراہ یا اراکین کی اکثریت فیصلہ کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دلیل بھی بلاجواز ہے کہ پرویز الہٰی کے مد مقابل امیدوار کو ووٹ دینے سے منع نہیں کیا گیا کیونکہ یکم اپریل کو تمام اراکین اسمبلی کو پرویز الہٰی سے متعلق ہدایات دی گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں چیف وہپ نے بھی خط کے ذریعے اراکین کو آگاہ کر دیا تھا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عمران خان نے فیصلے کے حوالے سے ٹوئٹ بھی کیا جس سے لاکھوں لوگوں نے پڑھا۔
انہوں نے مؤقف پیش کیا کہ 3 اپریل کو وزیراعلی کا الیکشن نہیں ہو سکا، 4 اپریل کو سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی اسد عمر نے بھی خط کے ذریعے اراکین کو مطلع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ منحرف اراکین نے فلیٹیز ہوٹل میں اجلاس میں بھی شرکت کی جبکہ پی ٹی آئی نے ٹی سی ایس کورئیر کی اصل رسیدیں جمع کروا دیں۔
علیم خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس اسٹیج پر اضافی دستاویزات جمع نہیں ہو سکتیں۔ الیکشن کمیشن نے کورئیر کمپنی کی رسیدیں جمع کروانے کی اجازت نہیں دی۔
بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے منحرف ارکان کو صفائی کا بھرپور موقع دیا، کسی بھی رکن نے شوکاز کا جواب نہیں دیا۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ اپنے تحریری جواب میں بھی اراکین نے ووٹ دینے کا اعتراف کیا ہے، الیکشن کمیشن میں سماعت کا مقصد یہی ہے کہ اگر پارٹی چیئرمین کے ڈیکلریشن میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو پوری کی جا سکے۔
پی ٹی آئی منحرف ارکان قومی اسمبلی کی نا اہلی سے متعلق ریفرنس خارج
یاد رہے کہ پچھلے ہفتے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف ارکان قومی اسمبلی سے متعلق ریفرنس خارج کردیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت تین رکنی بینچ نے منحرف ارکان کے خلاف نا اہلی ریفرنسز پر محفوظ فیصلہ سنایا تھا۔
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے 20 منحرف ارکان کو تاحیات نا اہل کرنے کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے خارج کردیں۔
الیکشن کمیشن نے آج نا اہلی ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے 14 اپریل کو نااہلی ریفرنسز چیف الیکشن کمشنر کو بھجوائے تھے۔
الیکشن کمیشن نے نا اہلی ریفرنسز پر چار سماعتیں کیں،الیکشن کمیشن نے 28 اپریل کو نااہلی ریفرنسز پر پہلی سماعت کی تھی۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے گزشتہ ماہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں منحرف اراکین سے متعلق درخواست دائر کردی گئی تھی۔
دائر کی گئی درخواست میں پی ٹی آئی نے 20 ارکان قومی اسمبلی کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہلی کے لیے ڈیکلریشن اور ریفرنس دائر کیے تھے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 20 سے زائد پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ منحرف ہوئے، منحرف اراکین کی وجہ سے اتحادیوں نے حکومت کا ساتھ چھوڑا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے دائر کیے گئے ریفرنس میں ایم این ایز نور عالم خان، ڈاکٹر محمد افضل خان ڈھانڈلہ، نواب شیر وسیر، راجہ ریاض احمد، احمد حسین ڈیہر، رانا محمد قاسم نون، عاصم نذیر، امجد فاروق کھوسہ، عامر لیاقت حسین، چوہدری فرخ الطاف، سید، مبین احمد، سید سمیع الحسن گیلانی، محمد عبدالغفار وٹو، سید باسط احمد سلطان، عامر طلال گوپانگ، سردار ریاض محمود خان مزاری، رمیش کمار وانکوانی، وجیہہ قمر، نزہت پٹھان اور جویریہ ظفر کے نام شامل تھے۔
تاہم، عمران خان کو ہٹانے کے لیے منحرف اراکین قومی اسمبلی کے ووٹوں کی ضرورت نہیں پڑی تھی کیونکہ اپوزیشن حکومت اتحادی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔
9 اپریل کی رات عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد، پی ٹی آئی کے منحرف اراکین قومی اسمبلی کے خلاف ان کے ڈیکلریشن 14 اپریل کو قائم مقام اسپیکر قومی اسمبلی نے ای سی پی کو بھیجے تھے۔
گزشتہ ماہ الیکشن کمیشن نے 20 اراکین قومی اسمبلی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں الیکشن کمیشن میں پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔
آرٹیکل 63 اے
آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
اگر پارلیمنٹیرین وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے تو اس سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔
آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے لیکن اعلان کرنے سے قبل پارٹی سربراہ ‘منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا’۔
اراکین کو ان کی وجوہات بیان کرنے کا موقع دینے کے بعد پارٹی سربراہ اعلامیہ اسپیکر کو بھیجے گا اور وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔
بعدازاں چیف الیکشن کمیشن کے پاس اعلان کی تصدیق کے لیے 30 دن ہوں گے۔
آرٹیکل کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے تصدیق ہو جاتی ہے، تو مذکورہ رکن ‘ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی’۔