سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کا فیصلہ سنادیا جس میں کہا گیا ہے کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کے معیاد کا تعین پارلیمان کرے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی اور فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے کہا کہ منحرف رکن کا دیا گیا ووٹ شمار نہیں کیا جائے، جبکہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
21 مارچ کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد حکومتی اراکین کی جانب سے وفاداری بدلنے پر ممکنہ نااہلی کے لیے سپریم کورٹ میں آئین کی دفعہ 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس میں 4 سوالات اٹھائے گئے تھے۔
آئین کی روح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انحراف کی لعنت کو روکنے اور انتخابی عمل کی شفافیت، جمہوری احتساب کے لیے آرٹیکل 63 اے کی کون سی تشریح قابل قبول ہوگی:
i) ایسی تشریح جو انحراف کی صورت میں مقررہ طریقہ کار کے مطابق رکن کو ڈی سیٹ کرنے کے سوا کسی پیشگی کارروائی مثلاً کسی قسم کی پابندی یا نئے سرے سے الیکشن لڑنے سے روکنے کی اجازت نہیں دیتی۔
ii) وہ مضبوط بامعنی تشریح جو اس طرح کے آئینی طور پر ممنوع عمل میں ملوث رکن کو تاحیات نااہل کر کے منحرف ووٹ کے اثرات کو بے اثر کر کے اس طرزِ عمل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔
کیا ایک رکن جو آئینی طور پر ممنوع اور اخلاقی طور پر قابل مذمت حرکت میں ملوث ہو اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا یا اس طرح کے ووٹوں کو خارج کیا جاسکتا ہے؟
کیا وہ رکن جو اپنے ضمیر کی آواز سن کر اسمبلی کی نشست سے مستعفی نہیں ہوتا اور انحراف کا مرتکب ہو جسے ایماندار، نیک اور سمجھدار نہیں سمجھا جاسکتا وہ تاحیات نااہل ہوگا؟
موجودہ آئینی اور قانونی ڈھانچے میں فلور کراسنگ، ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے کے لیے کون سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا تھا کہ جب پی ٹی آئی کے متعدد قانون سازوں کے سندھ ہاؤس اسلام آباد میں چھپے ہونے اور تحریک عدم اعتماد پر اس وقت کی اپوزیشن کا ساتھ دینے کا انکشاف ہوا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 21 مارچ کو آئین کے آرٹیکل 63 ‘اے’ کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
رکن کے ڈالے گئے ووٹ پر یہ کہنا شمار نہیں ہوگا، ووٹ کی توہین ہے، چیف جسٹس
صدارتی ریفرنس پر 24 مارچ کو سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر رکن اسمبلی کے ڈالے گئے ووٹ پر یہ کہنا کہ شمار نہیں ہوگا، ووٹ کی توہین ہے، آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے، اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے۔
سماعت کے دوران صدارتی ریفرنس پر معاونت کے لیے تمام صوبوں کو نوٹس جاری کیے گئے تھے۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے مؤقف اپناتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف پر تاحیات نااہلی ہونی چاہیے۔
سماعت کے دوران جے یو آئی (ف) کے وکیل کامران مرتضیٰ اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بھی دلائل دیے تھے۔
24 مارچ کو آرٹیکل 63 اے کی ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے)، مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے آئین کے آرٹیکل 63 ‘اے’ کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر اپنے اپنے تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروائے تھے۔
’آئین کی تشریح سے اِدھر اُدھر نہیں جاسکتے، ممکن ہے ریفرنس واپس بھیج دیں‘
25 مارچ کو سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ صدر نے آئین کی تشریح کا کہا ہے، تشریح سے ادھر ادھر نہیں جاسکتے، ممکن ہے ریفرنس واپس بھیج دیں۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیے تھے۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے پیر کے روز دلائل مکمل کرنے کی یقین دہانی کے بعد صدارتی ریفرنس پر سماعت پیر 28 مارچ کو دوپہر ایک بجے تک ملتوی کردی گئی تھی۔
پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کے نتائج بھگتنا ہوتے ہیں، چیف جسٹس
28 مارچ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کے نتائج بھگتنا ہوتے ہیں، آرٹیکل 63 اے میں لکھا ہے کہ رکنیت ختم ہو جائے گی، آپ نااہلی کی مدت کا تعین کروانا چاہتے ہیں۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے اپنے دلائل جاری رکھے تھے۔
دورانِ سماعت سپریم کورٹ نے وزیراعظم کی کمالیہ میں کی گئی تقریر پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
جسٹس مظہر عالم نے کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کمالیہ جلسے میں کہا کہ کوئی ججز کو اپنے ساتھ ملا رہا ہے، یہ کس طرح کے بیانات دیے جا رہے ہیں، اخبارات میں کیسے کیسے بیانات چھپ رہے ہیں۔
جسٹس مظہر عالم نے کہا تھا کہ اگر وزیراعظم کو ملک کے سب سے بڑے آئینی ادارے عدلیہ پر اعتماد نہیں تو پھر کیا ہوگا۔
تاہم چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت کے باہر کیا ہو رہا ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہی، ہم سوشل میڈیا میں ہونے والی بحث کے زیر اثر نہیں۔
5 سال تک نااہل قرار پانے والے پر تاحیات نااہلی کا اطلاق کیسے کردیں، سپریم کورٹ
29 مارچ کو ہونے والی سماعت میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے آبزرویشن دی تھی کہ آپ منحرف رکن پر بہت سنگین سزا کا تقاضا کر رہے ہیں، تاحیات نا اہلی کے تقاضے الگ ہیں منحرف رکن پر تاحیات نا اہلی جیسی سنگین اور سخت اصول کا اطلاق کیسے کرتے ہیں، 5 سال تک نااہل قرار دینے والے پر تاحیات نا اہلی کا اطلاق کیسے کر دیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کمالیہ تقریر میں 1997 میں سپریم کورٹ حملے کے تناظر میں بات کی گئی تھی، عدلیہ پر بھرپور اعتماد ہے اور یقین ہے۔
دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے تھے کہ آئین بنانے والوں کے لیے ڈی سیٹ ہونا بہت بڑی بات ہے، چوری ثابت کرنے کے لیے طریقہ کار کو اپنانا پڑے گا۔
اس سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا تھا۔
صدارتی ریفرنس مفروضے پر مبنی ہے، جسٹس جمال مندو خیل
30 مارچ کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے ذریعے آئین کی تشریح کے دور رس نتائج ہوں گے، جبکہ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ صدارتی ریفرنس مفروضے پر مبنی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے سپریم کورٹ میں ریفرنس پر دلائل دیے تھے۔
سماعت کے دوران پیپلزپارٹی کے وکیل نے کہا تھا کہ 20 مارچ کو اسمبلی اجلاس کا نوٹی یکیشن جاری کیا گیا جس میں کہا گیا 25 مارچ کو اجلاس ہوگا۔
’آئینی تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں لیکن اپنا کام کرتے رہیں گے‘
سپریم کورٹ میں نئی حکومت آنے کے بعد 18 اپریل کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ قومی لیڈروں کو عدالتی فیصلوں کا دفاع کرنا چاہیے، آئینی تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں لیکن اپنا کام کرتے رہیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے عدالت کو بتایا تھا کہ ابھی تک نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی نہیں ہوسکی، اگر عدالت مناسب سمجھے تو نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی کا انتظار کریں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں انحراف کی اجازت ہو، کچھ چاہتے ہیں نہ ہو؟ آج کل آسان طریقہ ہے دس ہزار بندے جمع کرو کہو میں نہیں مانتا، پارلیمان نے تاحیات نااہلی کا واضح نہیں لکھا، پارلیمنٹ نے یہ جان بوجھ کر نہیں لکھا یا غلطی سے نہیں لکھا گیا۔
سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیے تھے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آئین کی حفاظت کرنا ہماری ذمے داری ہے، ہم اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے، عدالت 24 گھنٹے کام کرتی ہے، کسی کو عدالتی کارروائی پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
’کلچر بن گیا ہے فیصلہ حق میں آئے تو انصاف، خلاف آئے تو انصاف تار تار ہوگیا‘
19 اپریل کی سماعت میں جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ کلچر بن گیا ہے کہ فیصلہ حق میں آئے تو انصاف اور اگر خلاف آئے تو کہا جاتا ہے کہ انصاف تار تار ہو گیا۔
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی میں رہتے ہوئے دوسری جماعت کو ووٹ دینا فلور کراسنگ ہوتا ہے۔
جسٹس جمال خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بھی مقررہ مدت تک فیصلے کی پابند ہے، جہاں بھی اختیار حد سے زیادہ ہوگا، وہاں استعمال غلط ہو گا۔
حلف سے انحراف کینسر اور پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے، سپریم کورٹ
20 اپریل کی سماعت میں سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی اور پارٹی سے انحراف کینسر کے مترادف ہے۔
سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل جاری رکھے تھے۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے بھی دلائل دیے۔
سپریم کورٹ آئین کی بالادستی کے لیے کھڑی ہے، چیف جسٹس
21 اپریل کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کو ماننے والے جب تک ہیں، تنقید سے فرق نہیں پڑتا، عدالت کے دروازے ناقدین کے لیے بھی کھلے ہیں جبکہ سپریم کورٹ آئین کی بالادستی کے لیے کھڑی ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے اپنے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدارتی ریفرنس کے بعد آئینی عہدیداروں نے آئین کی خلاف ورزی کی، اٹارنی جنرل مغربی جمہوریت کی غیر متعلقہ مثالیں دیتے رہے۔
سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل عل ظفر نے بھی دلائل دیے تھے۔
’عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہوکر گھر جائے‘
22 اپریل کی سماعت میں جسٹس منیب اختر نے کہا تھا کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے۔
تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دیے۔
سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے بھی دلائل دیے تھے۔
سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ سیاستدانوں کو قربانیاں دینا ہوں گی، بعد ازاں کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی گئی تھی۔
آرٹیکل 63 اے کی تشریح آنے والی نسلوں کیلئے کرنی ہے، چیف جسٹس
9 مئی کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے جبکہ ہم نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح آج کے لیے نہیں آنے والی نسلوں کے لیے کرنی ہے۔
سماعت کے دوران مسلم لیگ (ق) کے وکیل اظہر صدیق نے دلائل دیے۔
سماعت کے دوران بابر اعوان اور مسلم لیگ (ن) کے معاون وکیل نے بھی دلائل دیے تھے۔
ارکان کی نااہلی عدالت کے منسوخ کرنے تک برقرار رہے گی، جسٹس اعجازالاحسن
10 مئی کی سماعت میں جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تھا کہ جب تک ارکان اسمبلی کی نااہلی کا حکم عدالت ختم نہ کرے، نااہلی برقرار رہے گی۔
سماعت کے آغاز میں پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے وکیل اظہر صدیق نے بھی دلائل دیے تھے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ روایت بن گئی ہے کہ پیسوں سے حکومت گرائی جاتی ہے، چند لوگوں کی خرید و فروخت سے 22 کروڑ عوام کا مستقبل داؤ پر ہوتا ہے، اراکین کی خرید و فروخت کے ذریعے حکومت گرانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
کسی کو تاحیات نااہل کرنا بڑی سخت سزا ہے، چیف جسٹس
11 مئی کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ سمجھتے ہیں انحراف ایک سنگین غلطی ہے، لیکن کسی کو تاحیات نااہل کرنا بڑی سخت سزا ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل جاری رکھے تھے۔
اس سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار کے وکیل منصور اعوان کے دلائل مکمل ہوگئے تھے جبکہ عدالت نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے وکیل کو تحریری گزارشات جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 16 مئی تک ملتوی کردی تھی۔
اراکین کے ڈسپلن سے ہٹ کر ووٹ دینے سے سیاسی پارٹی ’ٹی پارٹی‘ بن جائے گی، چیف جسٹس
16 مئی کی سماعت کے دوران سماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے وکیل مصطفیٰ رمدے اور ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا شمائل بٹ نے دلائل دیے، جبکہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف غیر حاضر رہے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ آپ کہہ رہے ہیں منحرف اراکین کے لیے ڈی سیٹ کی سزا کافی ہے، آرٹیکل 63 اے کے طریقہ کار سے ہٹ کر مزید گہرائی میں نہیں جانا چاہتے ہیں، انہوں نے ریمارکس دیے تھے کہ ڈسپلن سے ہٹ کر ووٹ دینے سے سیاسی پارٹی ’ٹی پارٹی‘ بن جائے گی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے تھے کہ ہر رکن اپنی مرضی کرے گا تو جمہوریت کا فروغ کیسے ہوگا، کسی فرد پر فوکس کرنے کے بجائے سسٹم پر فوکس کیوں نہ کیا جائے، آرٹیکل 63 اے کے تحت انفرادی طور پر نہیں پارٹی کا حق ہوتا ہے، کیا 10، 15 اراکین سارے سسٹم کو تبدیل کرسکتے ہیں؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے تھے کہ انحراف سے بہتر ہے استعفیٰ دے دیں، استعفیٰ دینے سے سسٹم بھی بچ جائے گا، استعفیٰ دینے والے کو عوام ووٹ دیں تو وہ دوبارہ آجائے گا۔
صدارتی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ
17 مئی کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے دلائل دیے اور ایک موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت کو صدارتی ریفرنس کے لیے اٹارنی جنرل سے قانونی رائے لینے کی ضرورت نہیں ہے، آرٹیکل 186 کے مطابق صدر مملکت قانونی سوال پر ریفرنس بھیج سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس پر کافی سماعتیں ہو چکی ہیں، آرٹیکل 17 سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق سماعت مکمل ہوگئی تھی۔
آرٹیکل 63 اے
آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
اگر پارلیمنٹیرین وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے تو اس سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔
آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے لیکن اعلان کرنے سے قبل پارٹی سربراہ ‘منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا’۔
اراکین کو ان کی وجوہات بیان کرنے کا موقع دینے کے بعد پارٹی سربراہ اعلامیہ اسپیکر کو بھیجے گا اور وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔