مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کے بجائے سیاسی مخالفین پر تنقید کریں۔
امریکی نشریاتی ادارے ‘وائس آف امریکا’ کو دیے گئے انٹرویو میں چوہدری پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں بہتری کے لیے وہ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بھی عمران خان سے ملاقات ہوتی ہے تو یہی کہتا ہوں کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی نہیں کرنی بلکہ ہمارا ہدف ہمارے سیاسی مخالفین ہونے چاہئیں۔
اس سوال پر کہ عمران خان کی حکومت امریکی سازش سے گری یا اسٹیبلشمنٹ نے گرائی، پرویز الہیٰ کا کہنا تھا کہ اس موقع پر اس حوالے سے کوئی ایسی بات کرنا مناسب نہیں ہوگا جس کا کوئی فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہو۔
اس سوال پر کہ وہ کونسے معاملات تھے جن پر اختلافات سامنے آئے اور ایک صفحہ ایک نہیں رہا، پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ عمران خان کے پونے چار سالہ دورِ اقتدار میں خارجہ پالیسی کے محاذ پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اُن کے تعلقات میں اُونچ نیچ آتی رہی اور معاملات حل بھی ہوتے رہے، سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تعلقات کے معاملے پر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات سامنے آئے تھے۔
اسٹیبلشمنٹ کے ‘نیوٹرل’ ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کا اندازہ اس بات سے کرلیں کہ ایک وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو گئی اور اسٹیبلشمنٹ نے اس دوران کچھ نہیں کیا اور اسی لیے عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی، اس لیے یہ کہنا کہ وہ نیوٹرل نہیں یہ ٹھیک نہیں ہوگا، وہ نیوٹرل ہیں اور حکومتیں آزادانہ چل رہی ہیں۔
شہباز شریف حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے چوہدری پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ ’اب یہ کیوں بیساکھیاں تلاش کر رہے ہیں؟ اب یہ کیوں کسی کو ملوث کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اب یہ حکومت کریں اور ڈلیور کر کے دکھائیں، اشیا کی قیمتیں نیچے لے کر آئیں اور بجلی کا مسئلہ ٹھیک کریں جیسا کہ وہ ماضی میں دعوے کرتے رہے ہیں، شہباز شریف اب اپنی میکانکی دکھائیں‘۔
خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان ان دنوں ملک بھر میں جاری اپنے جلسوں میں واضح الفاظ میں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کر رہے ہیں جبکہ وہ اپنی تقاریر کے دوران پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دے رہے ہیں۔
‘شریف برادران کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں’
مسلم لیگ (ن) کے ساتھ معاملات طے پاجانے کے بعد اچانک بنی گالا جاکر عمران خان کا ساتھ دینے میں کسی ‘فون کال’ کے عمل دخل کے سوال پر چوہدری پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ شریف برادران کے ساتھ ہمارا ٹریک ریکارڈ اتنا اچھا نہیں تھا، انہوں نے ہر موقع پر ہمیں دھوکا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ 22 برس تک مسلم لیگ (ن) کے ساتھ رہے اور کئی مواقع پر وزارتِ اعلیٰ کے وعدے کے بعد بھی ہمیں دھوکا دیا گیا، اس لیے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے معاملے پر ہم چاہ رہے تھے کہ ان کا ساتھ دے کر دوبارہ غلطی نہ دہرائیں۔
پنجاب میں سیاسی اور آئینی صورتحال، صوبے میں گورنر نہ ہونے اور وزیراعلیٰ کے انتخاب کا معاملہ عدالت میں ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ پی پی ٹی آئی، وزیر اعلیٰ سے متعلق عدالت گئی ہوئی ہے اور یہ کیس اس وقت عدالت میں ہے جس پر میں عدالتی احترام میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا.
انہوں نے کہا کہ ‘صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ اتنا انوکھا کام ہوا ہے کہ ایک جج نے فیصلہ کردیا کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ کا حلف اسپیکر قومی اسمبلی لے جبکہ رولز کے مطابق یہ معاملہ اسپیکر قومی اسمبلی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ ‘
ان کی جانب سے قائم مقام گورنر پنجاب کے عہدے کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ابھی مشاورت جاری ہے، وکلا کا کہنا ہے کہ ابھی یہ معاملات عدالت میں زیر سماعت ہیں اور ان معاملات پر عدالت کی جانب سے کوئی فیصلہ آنے تک ہمیں انتظار کرنا چاہیے، پھر اس حوالے سے کوئی فیصلہ کریں گے۔
‘عمران خان نئے الیکشن کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں’
عام انتخابات کے حوالے سے چوہدری پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ (ن) لیگ اس حوالے سے کیا سوچ رہی ہے یہ ان کا اپنا معاملہ ہے، عمران خان چاہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے لیے انتخابات فوری ہوں جبکہ صوبائی حکومتیں اپنی مدت پوری کریں، ان کے بقول اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے کہ وفاقی سطح پر انتخابات ہوں اور صوبائی اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں۔
اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان جو دباؤ ڈال رہے ہیں اور لانگ مارچ کا عندیہ دے رہے ہیں، وہ اسی لیے ہے کہ جلد سے جلد نئے الیکشن ہوں۔
ناقدین کی جانب سے (ق) لیگ اور چوہدری برادران میں پھوٹ پڑنے سے متعلق سوال کے جواب میں پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہے، طارق بشیر چیمہ بھی ہمارے ساتھ ہیں، وہ مسلم لیگ (ق) کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں، اس وقت وہ وزیر ہیں مگر یہ وزارتیں کتنی دیر چلنی ہیں، جب وزارت ختم ہوجائے گی تو انہوں نے گھر ہی آنا ہے۔