قومی اسمبلی میں اپوزیشن بینچ کی مکمل غیر موجودگی کے سبب حکومت صدر ڈاکٹر عارف علوی کے خلاف طے شدہ مذمتی قرارداد پیش کرنے میں ناکام رہی۔
واضح رہے کہ یہ قرارداد صدر عارف علوی کی جانب سے وزیراعظم کی گورنر پنجاب کو برطرف کرنے کی تجویز پر عملدرآمد میں تاخیر اور پھر مسترد کرنے کے غیر آئینی اقدام سے متعلق ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن کا ایک چھوٹا گروپ کورم کی کمی کی نشاندہی کر کے ایوان کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے میں کامیاب رہا جس کے بعد اسپیکر کو اجلاس بدھ (آج) تک ملتوی کرنا پڑا۔
کورم کے مسئلے کی نشاندہی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے غوث بخش مہر نے اس وقت کی جب اسپیکر راجا پرویز اشرف کی جانب سے صدر کے طرز عمل پر بحث کی اجازت دینے کے بعد حکمران مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے 2 وفاقی وزرا ایاز صادق اور جاوید لطیف تقریر کر چکے تھے۔
غوث بخش مہر نے اسپیکر کی جانب سے پرائیویٹ ممبرز ڈے کے لیے 185 نکاتی ایجنڈے کو ایک جانب رکھتے ہوئے بحث کی اجازت دینے کے اقدام پر اپنا احتجاج درج کرانے کے لیے کورم کی کمی کی نشاندہی کی۔
جب جی ڈی اے کے رکن اسمبلی نے کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کی اس وقت ایوان کو ڈپٹی اسپیکر زاہد درانی چلا رہے تھے جس کے لیے 86 ایم این ایز (کل 342 ارکان میں سے ایک چوتھائی) کی موجودگی لازم ہے۔
اس سے ایک روز قبل پیر کو قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے خلاف ملک کی مسلح افواج کو مبینہ طور پر بدنام کرنے کے الزام میں ایک ایسی ہی قرارداد منظور کی تھی۔
صدر کے طرز عمل پر بحث کرانے اور ان کے خلاف قرارداد پیش کرنے کا مطالبہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے آیا۔
پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے ایاز صادق نے صدر کی طرف سے وزیراعظم کی گورنر پنجاب کو برطرف کرنے کی سمری مسترد کرنے کے اقدام کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے اس کی مذمت کی اور اسے آئین کی شق 48 کی خلاف ورزی قرار دیا جو صدر کو وزیراعظم کے مشورے کو قبول کرنے کا پابند کرتا ہے۔
ایاز صادق نے افسوس کا اظہار کیا کہ صدر اپنی ذاتی اور سیاسی وابستگیوں کو آئین پر ترجیح دے رہے ہیں، انہوں نے الزام عائد کیا کہ صدر نے اپنے حلف کی بھی خلاف ورزی کی ہے جس کے مطابق انہیں اپنے آئینی فرائض کی ادائیگی کے دوران ذاتی مفادات اور اثر و رسوخ کی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ ان ہی صدر نے سابق گورنر چوہدری سرور کا استعفیٰ منظور کیا تھا اور اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی ایڈوائس پر چند منٹوں میں نئے گورنر کا تقرر کیا تھا، انہوں نے صدر کو مشورہ دیا کہ اگر وہ آئین کا احترام نہیں کر سکتے تو باعزت طریقے سے عہدہ چھوڑ دیں، بصورت دیگر ان کے لیے اگست میں ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنا مشکل ہو جائے گا۔
اپوزیشن لیڈر کے بغیر ایوان
سابق اسپیکر اور جی ڈی اے کی رکن فہمیدہ مرزا نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی کے بغیر ایوان نامکمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ ایوان کو قانونی حیثیت دینا چاہتے ہیں تو فوری طور پر اپوزیشن لیڈر کا تقرر کریں، انہوں نے طویل لوڈشیڈنگ، سندھ میں پانی کی قلت اور ملک میں مہنگائی پر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
جی ڈی اے کے 4 اراکین کے علاوہ پی ٹی آئی کے تقریباً 22 منحرف اراکین بھی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے تھے، اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان نور عالم خان اور راجا ریاض کے علاوہ جی ڈی اے بھی اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے کی خواہشمند ہے کیونکہ اب اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی بڑے پیمانے پر استعفے جمع کرانے کے بعد ایوان میں واپس آنے کو تیار نہیں۔
ایم کیو ایم کی دھمکی
اس سے قبل متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی کشور زہرہ نے اسمبلی ہال کی پچھلی نشستوں پر پارٹی ارکان کو نشستیں الاٹ کرنے پر ایوان کی کارروائی کے بائیکاٹ کی دھمکی دی۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے ارکان نے پیر کو ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا اور اگر ان کی نشستیں تبدیل نہ کی گئیں تو وہ بدھ کو دوبارہ ایوان میں نہیں آئیں گے۔
پی ٹی آئی کے نور عالم خان نے الیکشنز ایکٹ 2107 میں ترمیم کے لیے ایک بل پیش کیا، جس میں پچھلی حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی ایک شق کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس کے تحت دوہری شہریت رکھنے والوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی مشروط اجازت دی گئی تھی۔