خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ری پولنگ مکمل ہونے کے بعد اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) میئر اور تحصیل کونسلوں کے چیئرمینز کی 24 نشستیں حاصل کرکے سرفہرست ہے جبکہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 17 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں آزاد امیدواروں نے 10 نشستیں حاصل کیں، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی ) نے 7، پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 3، جماعت اسلامی (جے آئی) اور تحریک اصلاح پاکستان نے 2، 2 جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی-پارلیمنٹیرینز (پی پی پی پی) نے ایک نشست حاصل کی۔
بلدیاتی انتخابات کے دوران جہاں صوبے کی سب سے اہم سمجھے جانی والی پشاور شہر کے میئر کی نشست جے یو آئی (ف) نے حاصل کی وہیں مولانا فضل الرحمٰن کے آبائی شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان کے میئر کی اہم نشست پر اسے پی ٹی آئی کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
جے یو آئی (ف) کے سابق سینیٹر حاجی غلام علی کے صاحبزادے زبیر علی 63 ہزار 610 ووٹ لے کر پشاور سٹی کے میئر منتخب ہوئے جبکہ ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے امیدوار محمد رضوان خان نے 51 ہزار 523 ووٹ حاصل کیے۔
ڈی آئی خان شہر کے میئر کے لیے وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کے بھائی و پی ٹی آئی کے امیدوار عمر امین خان گنڈاپور 63 ہزار 753 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جبکہ جے یو آئی (ف) کے امیدوار محمد کفیل احمد 38 ہزار 891 ووٹ حاصل کرسکے۔
سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی و پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل کریم کنڈی نے 32 ہزار 788 ووٹ حاصل کیے۔
13 فروری کو ری پولنگ سے قبل تحصیل کونسلوں کے میئر/چیئرمین کی 46 نشستوں کے نتائج واضح تھے، ان میں سے جے یو آئی ایف نے 18، پی ٹی آئی نے 9، اے این پی نے 6، آزاد امیدواروں نے 6، مسلم لیگ (ن) نے 3 اور پی پی پی پی، ٹی آئی پی اور جے آئی نے ایک، ایک نشست حاصل کی تھی۔
حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف نے 19 تحصیل کونسلوں میں دوبارہ پولنگ اور ڈیرہ اسمٰعیل خان شہر کے میئر کی نشست پر تازہ پولنگ کے دوران اچھی کارکردگی دکھائی۔
ری پولنگ کے دوران 20 میں سے پی ٹی آئی 8 سیٹوں پر کامیاب ہوئی ہے جبکہ جے یو آئی (ن) نے 6، آزاد امیدواروں نے 3 اور اے این پی، جے آئی اور ٹی آئی پی نے ایک، ایک نشست حاصل کی ہے۔
حکمران جماعت نے جنوبی ضلع کرک میں کرک، تخت نصرتی اور بانڈہ داؤد شاہ تحصیل کونسلوں کے چیئرمین کی تینوں نشستیں جیت کر کلین سویپ کیا۔
اسی طرح اس کے امیدوار نوشہرہ کی دو تحصیل کونسلوں یعنی نوشہرہ اور جہانگیرہ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔
وزیر دفاع پرویز خٹک کے صاحبزادے پی ٹی آئی کے امیدوار اسحٰق خٹک تحصیل نوشہرہ کے چیئرمین کے طور پر 49 ہزار 310 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ جے یو آئی (ف) کے مفتی حاکم علی نے 41 ہزار 51 ووٹ حاصل کیے۔
ضلع نوشہرہ میں پَبی کی تیسری تحصیل کونسل 18 دسمبر کو ہونے والے انتخابات میں اے این پی کے امیدوار نے جیتی تھی۔
ایک اور جنوبی ضلع لکی مروت میں بااثر سیف اللہ خاندان کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار لکی مروت اور غزنی خیل تحصیل کونسلوں کے چیئرمین منتخب ہوئے جبکہ سرائے نورنگ کی تیسری تحصیل کونسل جماعت اسلامی کے امیدوار کے حصے میں آئی۔
بونیر میں تحصیل کھڈو خیل کے واحد پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ پولنگ ہوئی جس میں اے این پی کے گلزار حسین چیئرمین منتخب ہوئے، جبکہ بونیر کی دیگر 6 تحصیل کونسلوں میں پی ٹی آئی نے چیئرمینز کی 5 نشستیں حاصل کیں، ایک کونسل کی چیئرمین شپ اے این پی نے حاصل کی۔
قبائلی ضلع باجوڑ میں جے یو آئی (ف) کے امیدوار سید بادشاہ خر تحصیل کونسل کے چیئرمین جبکہ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر خلیل الرحمٰن نواگئی تحصیل کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے۔
اسی طرح ٹی آئی پی، جس نے پہلے خیبر کے قبائلی ضلع میں جمرود تحصیل کونسل کی نشست حاصل کی تھی، نے ری پولنگ میں ایک اور نشست جیتی، اس کے امیدوار شاہ خالد لنڈی کوتل تحصیل کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے، جبکہ ضلع کی تیسری تحصیل یعنی باڑہ تحصیل کے چیئرمین کی نشست جے یو آئی (ف) نے حاصل کی۔
ضلع بنوں میں پی ٹی آئی امیدوار ڈومیل اور جے یو آئی (ف) کے امیدوار بکاخیل تحصیل کونسلوں کے چیئرمین منتخب ہوئے۔
اپر مہمند تحصیل کونسل کے چیئرمین کے انتخاب میں جے یو آئی (ف) کے حافظ تاج ولی کامیاب قرار پائے۔
ضلع کوہاٹ کی تحصیل کونسل درہ آدم خیل میں آزاد امیدوار شاہد اقبال چیئرمین منتخب ہوئے۔
مجموعی طور پر سٹی، تحصیل کونسلوں کے میئر، چیئرمین کی 7 میں سے 5 میں کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ صوبائی دارالحکومت پشار میں جے یو آئی (ف) کی کارکردگی شاندار رہی، جبکہ پی ٹی آئی اور اے این پی نے ایک، ایک نشست حاصل کی۔
واضح رہے کہ پشاور کے 14 ایم پی ایز میں سے 11 کا تعلق پی ٹی آئی اور 3 کا اے این پی سے ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں 17 اضلاع کی 65 میں سے 64 تحصیل کونسلوں کے لیے پولنگ ہوئی جبکہ ڈیرہ سٹی کونسل میں امیدوار کی موت کے باعث پولنگ ملتوی کر دی گئی تھی، تاہم کچھ پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کرائے جانے کے باعث 19 کونسلوں کے نتائج روکے گئے۔