پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں بننے والے حکمران اتحاد میں شامل بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے سینیٹرز نے ایوان بالا سے واک آؤٹ کرتے ہوئے حکمراں جماعت کو خبردار کیا کہ اگر انہیں وفاقی سطح پر مناسب نمائندگی نہیں دی گئی تو وہ حکومت کے ساتھ مزید نہیں چل سکتے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹر پرنس احمد عمر احمد زئی نے سینیٹ سے واک آؤٹ کا اعلان کرنے سے قبل کہا کہ ہم اس طرح آگے نہیں بڑھ سکتے، ہم صرف اس صورت میں ہی آپ کی حمایت کریں گے جب ہمارے مطالبات کو سنجیدگی سے سنا جائے گا، ورنہ ہمیں اجلاسوں میں شرکت کی ضرورت نہیں ہے۔
اپنی پارٹی کو گرے لسٹ سے نکالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سینیٹر احمد عمر زئی کا کہنا تھا کہ گزشتہ ساڑھے 3 سال کے دوران وفاقی سطح پر بی اے پی کی نمائندگی کم رہی ہے۔
بلوچستان میں کے عوام میں احساس محرومی کی موجودگی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کچھی کینال جیسے نامکمل منصوبوں پر بہت کم توجہ دی جا رہی ہے، جبکہ آج تک صوبے کے کسی بھی شخص کو نیشنل بینک آف پاکستان کا سربراہ مقرر نہیں کیا گیا۔
انہوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ اگر ان کی پارٹی کے قانون سازوں کو ایوان بالا میں مناسب نمائندگی نہیں دی گئی تو وہ سینیٹ اجلاس کا بائیکاٹ کریں گے۔
انہوں نے اپنے مطالبے بھی کو دہرایا کہ وفاقی حکومت بی اے پی کو گرے لسٹ سے نکالیں۔
بی اے پی کے ایک اور سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ صوبے میں انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پینے پر مجبور ہیں، بی اے پی صوبے کے لوگوں کے حقوق چاہتی ہے۔
گیس اور بجلی کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے، بلوچستان کے لوگوں پر رحم کریں۔
ایوان میں واپسی کے بعد بھی بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹرز کی جانب سے احتجاج جاری رہا۔
معاملے پر بات کرتے ہوئے سینیٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مسائل حل کیے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی نمائندگی بڑھانے کے معاملے پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔
سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن نے ملک کی خارجہ پالیسی پر سوالات اٹھائے ہوئے اسے ’کنفیوزڈ (مبہم)‘ خارجہ پالیسی قرار دیا۔
شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کے یہ ریمارکس کہ امریکا نے ہمیشہ پاکستان کو استعمال کیا ہے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے امریکا کے ساتھ وسیع البنیاد تعلقات کے دعوے کے بالکل برعکس ہے، جبکہ امریکا اب بھی پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ ہے۔
انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کا بیان پالیسی بیان ہے، اگر ہمیں استعمال کیا گیا ہے تو اس کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہیے۔
سابق چیئرمین سینیٹ اور پی پی پی کے قانون ساز میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں، خارجہ پالیسی کا فیصلہ ریاست کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کا بیان گڈ کاپ اور بیڈ کاپ پالیسی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
رضا ربانی کا مزید کہنا تھا کہ ریاست کا جھکاؤ امریکا کی طرف رہا ہے، پاکستان میں قدامت پسند قوتوں نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے حکم پر ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی اور بعد میں ڈرون حملے کرنے کے لیے شمسی ایئربیس بھی امریکا کو فراہم کی۔
سابق چیئرمین سینیٹ کا مزید کہنا تھا کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ سی پیک کو امریکا کے حکم پر پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ پاکستان کا اسٹریٹجک مفاد ایشیا، چین اور روس کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اس کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکا کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ پاکستان نے امریکا کو اپنی خودمختاری دی اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے سامنے بھی اپنی خود مختاری پر ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کیے۔
عالمی قرض دہندہ کی حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بجٹ کی تیاری کے لیے بھی آئی ایم ایف کی جانب سے ہدایات فراہم کی جارہی ہیں۔
اس سے قبل وقفہ سوالات کے دوران وزیر خزانہ شوکت فیاض احمد ترین نے ایوان کو بتایا کہ آئندہ ماہ سے پاکستان مؤخر ادائیگی پر سعودی سے تیل حاصل کرنے کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کا سلسلہ شروع کر دے گا۔
سوالات کے جواب میں وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دسمبر 2021 میں سعودی عرب سے ایک سال کے لیے 4 فیصد شرح سود پر 3 ارب ڈالر مل چکے ہیں۔