عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) سے ہاؤسنگ اور تعمیراتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے اٹھائے جانے والے 2 اہم اقدامات سے پیچھے ہٹنے کا مطالبہ کیا ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق جولائی 2020 میں اسٹیٹ بینک نے بینکوں کے لیے لازمی قرار دیا کہ وہ دسمبر 2021 تک ہاؤسنگ اور تعمیراتی شعبوں کے لیے دیے جانے والے قرضوں میں اپنا حصہ 5 فیصد تک بڑھائیں۔
اسٹیٹ بینک نے جون 2021 میں کیپٹل ایڈیوکیسی ریوگولیشنز کو بھی تبدیل کیا تاکہ ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹس (آر ای آئی ٹیز) میں بینکوں کی سرمایہ کاری کو درپیش رسک 200 فیصد سے کم کر کے 100 فیصد تک لایا جاسکے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے دوبارہ شروع کیے گئے قرض پروگرام کے تحت ایک ارب ڈالر کی قسط کے ساتھ جاری کی گئی اسٹاف رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک کو تاکید کی ہے کہ وہ مالی استحکام کے خدشات کے باعث ان اقدامات کو ختم کرے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بینکوں کے ہاؤسنگ قرضے کے اہداف مالی استحکام کے لیے خطرات پیدا کر سکتے ہیں اور کریڈٹ کی غلط تقسیم کا سبب بن سکتے ہیں۔
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے ریسرچ ڈائریکٹر سید عاطف ظفر کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ اس طرح کی مداخلتیں فری مارکیٹ اکانومی کے اصولوں کے منافی ہیں،
تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک تجویز ہے جسے درمیانی یا طویل مدت تک لاگو کیا جاسکتا ہے، ہمیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ اسٹیٹ بینک ان مراعات کو کل ہی ختم کردے گا۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ مالی لحاظ سے کمزور آبادی کے لیے سماجی پالیسی کے مقاصد مثلاً سستی رہائش کا حصول ’ٹارگٹڈ بجٹ سبسڈی پروگرام‘ سے زیادہ موثر طریقے سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ نجی شعبے کے قرضے میں مدد کے لیے اسٹرکچر میں موجود دیرینہ خامیوں کو دور کریں۔
پاکستان نے اسٹریٹجی پیپر تیار کرنے کے لیے فروری کے آخر تک ایک ورکنگ گروپ کے قیام پر رضامندی ظاہر کی ہے جو ہاؤسنگ اور تعمیراتی شعبوں کی ترقی میں اسٹرکچرل مسائل کا حل پیش کرے گا۔
اسمٰعیل اقبال سیکیورٹیز کے ہیڈ آف ریسرچ فہد رؤف کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے سب سے پہلے اپریل 2021 میں ان مراعات کو واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ ہاؤسنگ اور تعمیراتی شعبوں کے حوالے سے حکومت کے مؤقف کے تحت اسٹیٹ بینک نے اس سے پیچھے ہٹنے کے بجائے مراعات کے دائرہ کار کو مزید جارحانہ انداز میں بڑھا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک ایسا لگتا رہا ہے کہ آئی ایم ایف اور حکومت ایک پیج پر نہیں ہیں، اب یہ دیکھنا ہوگا کہ اسٹیٹ بینک خود مختار ہونے کے بعد آگے کیسے کام کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت چاہے گی کہ اسٹیٹ بینک ہاؤسنگ اور تعمیرات کے حوالے سے اپنے اقدامات جاری رکھے، آئی ایم ایف کا پروگرام ستمبر میں ختم ہو جائے گا، میرے خیال ہے اس وقت تک ان مراعات کو ختم کرنے کے لے اس وقت تک تاخیر کی جاسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اگلے عام انتخابات سے پہلے کسی اور آئی ایم ایف پروگرام کا معاہدہ نہیں کریں گے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اگر یہ تجویز لاگو ہوجاتی ہے تو تعمیرات اور رہائش کے لیے فراہم کردہ مراعات سے پیچھے ہٹنے سے سیمنٹ، شیشے، اسٹیل اور ٹائلوں کی طلب کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ نجی شعبے کے 2 بینکوں کی کم سرمایہ کاری کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے زیادہ فعال انداز اپنائے۔
اگرچہ آئی ایم ایف نے ان بینکوں کا نام نہیں لیا تاہم سید عاطف ظفر کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا اشارہ ’سمٹ بینک لمیٹڈ‘ اور ’سلک بینک لمیٹڈ‘ کی طرف ہے جن کے پاس اسٹیٹ بینک کے معیار کے مطابق سرمائے کی کمی ہے۔
یہ دونوں بینک یا تو اپنے موجودہ سپانسرز سے ایکویٹی انجیکشن حاصل کر کے یا پھر دوسرے مالدار سرمایہ کاروں کی مدد سے اس مطلوبہ معیار کو حاصل کر سکتے ہیں۔
سید عاطف ظفر نے کہا کہ سلک بینک لمیٹڈ کے سپانسرز پچھلے ایک سال سے اسے فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسی طرح سمٹ بینک میں نئے کیپٹل انجیکشن کے حوالے سے بات ہوئی ہے جس سے حصص کی کل قیمت کے لحاظ سے دوسرے سب سے چھوٹے قرض دہندہ کے لیے کیپٹل ایڈیوکیسی میں بہتری آئے گی۔
آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ری فنانس اسکیموں کو اسٹیٹ بینک سے حکومت کو منتقل کرنے کے لیے ایک ترقیاتی مالیاتی ادارہ قائم کریں۔
اسماعیل اقبال سیکیوریٹیز کی جانب سے جاری ایک ریسرچ نوٹ میں کہا گیا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں وقت لگے گا، اگر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے، تو یہ برآمد کنندگان کے لیے خاص طور پر ٹیکسٹائل کے شعبے میں ورکنگ کیپیٹل کی لاگت میں اضافہ کر سکتا ہے۔
آئی ایم ایف نے یہ بھی تجویز کی کہ حکومت اگلے بجٹ میں کھاد اور ٹریکٹروں سے سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرے۔
تاہم نوٹ میں مزید کہا گیا کہ اس ٹیکس چھوٹ کو سبسڈی میں تبدیل کرنے کے لیے حکومت نے وقت مانگا ہے جس سے کھاد کے شعبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے، زیادہ ٹیکس ٹریکٹرز کی مانگ کو کم کر سکتے ہیں۔
نوٹ میں بتایا گیا کہ حکومت پروگریس کو بڑھانے کے لیے شرحوں اور انکم ٹیکس بریکٹس کی تعداد کو کم کرکے پرسنل انکم ٹیکس کا اسٹرکچر تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
اس کے مطابق قانون سازی کا مسودہ فروری تک تیار ہو جائے گا اور اسے 2022-23 کے بجٹ میں نافذ کیا جائے گا۔
نوٹ میں مزید کہا گیا کہ اس اقدام سے تنخواہ دار طبقے کی قوت خرید کو نقصان پہنچے گا جس کے نتیجے میں گڈز اینڈ سروسز کی ڈیمانڈ متاثر ہوگی۔