مردوں کو گنج پن سے بچانے میں مددگار مؤثر علاج کی جانب پیشرفت

بالوں میں تیزی سے کمی، یا کسی جگہ سے گنج پن کی جھلک ایسا مسئلہ ہے جس کا لگ بھگ 90 فیصد مردوں کو زندگی میں کسی نہ کسی شکل میں سامنا ہوتا ہے۔

اس مسئلے کے ساتھ ساتھ بیشتر مردوں میں خود اعتمادی میں کمی، ذہنی بے چینی اور ڈپریشن جیسی علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔

اس حوالے سے سرجری سے ہٹ کر علاج کے آپشن محدود ہیں اور سرجری بہت مہنگی ہوتی ہے۔

مگر اب ایک تحقیق میں مختلف ادویات کے اثرات کا موازنہ کرکے مردوں میں بالوں سے محرومی کے علاج کے لیے ان کی افادیت کو جانچا گیا ہے۔

میموریل سلون کیٹرنگ کینسر سینٹر کی اس تحقیق میں 23 تحقیقی رپورٹس کا جامع تجزیہ کیا گیا جس کے نتائج جریدے جرنل جاما ڈرماٹولوجی میں شائع ہوئے۔

تحقیق میں منہ کے ذریعے کھائی جانے والی 3 ادویات minoxidil، dutasteride اور finasteride کو 2 سے 4 ماہ تک متعدد مقدار میں خوراکوں کے ذریعے استعمال کیا گیا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ روانہ 5 ملی گرام dutasteride کے استعمال سے مردوں میں بلوں کی محرومی کی شرح کم ہونے کا امکان سب سے زیادہ ہوا ہے۔

اس دوا کو یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے مردوں کے مثانے بڑھ جانے کے عارضے کے علاج کے لیے منظوری دی ہے جبکہ اسے مردوں کے سر کے درمیان گنج پن کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، مگر اس کی منظوری ایف ڈی اے نے نہیں دی۔

تو یہ اس دوا کا آف لیبل اثر ہے اور محققین کے مطابق ادویات کا آف لیبل استعمال بہت عام ہے۔

انہوں نے بتایا کہ متعدد ادویات کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ وہ اس کے لیے نہیں بنی ہوتیں، مگر ایسے شواہد ہوتے ہیں کہ وہ کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں۔

تحقیق کے مطابق dutasteride کے مضر اثرات دیگر علاج سے زیادہ سخت ہوسکتے ہیں۔

دوسرے نمبر پر روزانہ 5 گرام finasteride کے استعمال کو قرار دیا گیا۔

اس دوا کو بھی ایف ڈی اے نے منظوری دے رکھی ہے اور یہ بھی مثانوں کے بڑھ جانے کے عارضے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ دوا کے استعمال سے 4 ہفتوں میں بالوں کی تعداد میں بردست اضافہ ہوا۔

تو تیسرے نمبر پر minoxidil کی روزانہ 5 ملی گرام مقدار کا استعمال رہا۔

یہ تحقیق کسی حد تک محدود تھی اور ان کے استعمال سے فوائد کا دورانیہ 24 سے 48 ہفتوں کا رہا اور ہر ایک کے اپنے الگ مضر اثرات تھے۔

خیال رہے کہ ان ادویات کا استعمال لوگوں کو خود نہیں کرنا چاہیے بلکہ طبی ماہرین سے مشورہ کرنا چاہیے کیونکہ اس حوالے سے ابھی مزید تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔

کیٹاگری میں : ہوم

اپنا تبصرہ بھیجیں