پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی پنجاب اسمبلی کے منحرف اراکین اسمبلی کے خلاف درخواست پر علیم خان کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اراکین کو شوکاز نوٹس کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے اور یہ نوٹس غیرآئینی ہے۔
چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین پنجاب اسمبلی کے خلاف ریفرنسز پر سماعت کی جہاں پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل فیصل چودھری اور اظہر صدیق جبکہ منحرف اراکین کی جانب سے سلمان اکرم راجا، خالد اسحٰق اور میاں فیصل پیش ہوئے۔
الیکشن کمیشن نے بتایا کہ تحریک انصاف نے جواب الجواب کی دستخط شدہ کاپی اور بیان حلفی جمع کروا دیا ہے جس پر منحرف اراکین کے وکیل شہزاد شوکت نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے آج نیا جواب الجواب جمع کرایا گیا ہے تو پھر گزشتہ سماعت پر جو جواب الجواب جمع کرایا گیا تھا اس کی کیا حیثیت ہے؟
انہوں نے کہا کہ پہلے گزشتہ جواب الجواب کو الیکشن کمیشن کے ریکارڈ پر لایا جائے کیونکہ میں جمعے کو جمع کرائے گئے جواب الجواب پر دلائل دینا چاہتا ہوں۔
وکیل شہزاد شوکت نے بتایا کہ عمران خان نے آج اپنے بیان سے یو ٹرن لے لیا ہے اور عمران خان الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کر رہے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے مکالمہ کیا کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کو دستخط شدہ کاپی جمع کرانے کی ہدایت کی تھی، غیر دستخط شدہ دستاویزات جمع کروانے کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں؟ جبکہ وکیل شہزاد شوکت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نیا جواب الجواب مسترد کرے۔
منحرف اراکین کے وکیل خالد اسحٰق نے کہا کہ اراکین قومی اسمبلی کے کیس میں الیکشن کمیشن نے نیا ریکارڈ جمع کرانے کی درخواست مسترد کی تھی جبکہ اس کیس میں جواب الجواب کی آڑ میں مزید ریکارڈ جمع کرایا گیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ دیکھنا ہے جواب الجواب میں جمع ریکارڈ کیس کا حصہ بنانا ہے یا نہیں، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کا دستخط شدہ نیا جواب الجواب قبول کر لیا ہے۔
پی ٹی آئی کے ناراض رکن پنجاب اسمبلی علیم خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے کہ پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ اہم ہے پارٹی چیئرمین کا نہیں، پنجاب اسمبلی کے معاملے میں پارلیمانی پارٹی کی کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ شو کاز نوٹس کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، آرٹیکل 63 اے کے تحت پارلیمانی پارٹی اراکین کو ہدایات جاری کرتی ہے، سپریم کورٹ عائشہ گلالئی کیس میں اس بات کو واضح کر چکی ہے، پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ نہ آنے پر ارکان کسی کو بھی ووٹ دینے کے لیے آزاد تھے، پارلیمانی پارٹی اور پارٹی چیئرمین میں واضح فرق ہے، لہٰذا پارٹی پالیسی جاری نہ کرنے پر آرٹیکل 63 اے کا اطلاق نہیں ہوتا۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ پارٹی چیئرمین ہدایات جاری نہیں کرسکتا جبکہ اراکین پنجاب اسمبلی کو پارلیمانی پارٹی کی جانب سے کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ ارکان کو شو کاز نوٹس کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، شوکاز نوٹس جاری ہونے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے، پارٹی چیئرمین کی جانب سے علیم خان کو کوئی شوکاز نوٹس جاری ہی نہیں ہوا۔
انہوں نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے کورئیر کمپنی کی جعلی رسیدیں جمع کروائی ہیں، شو کاز نوٹس کا اجرا پر جواب کے لیے مناسب وقت دینا رکن کا آئینی حق ہے۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ پی ٹی آئی کے مطابق 16 اپریل کو شو کاز نوٹس بھجوایا گیا تھا لہٰذا 18 اپریل کو بھجوایا گیا ریفرنس غیر آئینی ہے، میرے موکل علیم خان کو تو نوٹس ملا ہی نہیں۔
سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے کہ تحریک انصاف نے دستاویزات میں جعل سازی کی ہے، چئیرمین پی ٹی آئی نے وزارت اعلیٰ کا امیدوار کسی اور جماعت کے شخص کو بنایا، پارلیمانی پارٹی نے وزارت اعلیٰ کے لیے امیدوار کا فیصلہ نہیں کیا، پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ نہ آنے پر اراکین کسی کو بھی ووٹ دینے کے لیے آزاد تھے۔
علیم خان کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنے اراکین پنجاب اسمبلی کو 4 اپریل کو خط کے ذریعے پرویز الہٰی کو ووٹ دینے کی ہدایت دی، خط میں واضح طور پر درج ہے کہ ہدایت پارٹی چیئرمین عمران خان کی جانب سے دی گئی لیکن خط میں پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ آج جو جواب الجواب جمع کروایا گیا ہے اس میں بیان حلفی عمران خان کا نہیں بلکہ سبطین خان کا ہے، عمران خان نے بیان حلفی کو سپورٹ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان بیان حلفی دینے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں، انہیں پتا ہے کہ جھوٹے بیان حلفی پر کارروائی ہو سکتی ہے۔
سلمان اکرم راجا اور منحرف ارکان کے وکیل شوکت شہزاد نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جبکہ الیکشن کمیشن نے مزید سماعت کل دن 12 بجے تک ملتوی کر دی۔