پاکستانی اور آسٹرین وزرائے خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل عنقریب میں نئے باب داخل ہونے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ گہرے اور مضبوط اقتصادی تعلقات دیکھ رہے ہیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق آسٹرین ہم منصب الیگزینڈر اسکالنبرگ کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’ ہم نے دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے راستہ طے کیا ہے‘۔
اس موقع پر آسٹرین وزیر خارجہ الیگزینڈر اسکالنبرگ نے کہا کہ ’ان کا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف سیاسی بلکہ اقتصادی تعلقات کے نئے دور کی نشاندہی بھی کرتا ہے‘۔
آسٹرین وزیر خارجہ نے 20 تاجروں کے وفد کے ہمراہ پاکستان کا 4 روزہ دورہ کیا، اس دوران اقتصادی ایجنڈا زیر بحث رہا جبکہ انہوں نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، اور وزیر اعظم عمران خان سے جغرافیائی سیاست اور خاص طور پر افغانستان اور یوکرین کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملاقات کے دوران تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقعوں کی نشاندہی بھی کی۔
الیگزینڈر اسکالنبرک نے ہائیڈروجن پاور، سیاحت، انفرااسٹریکچر، اور گرین ٹیکنالوجی کے شعبوں میں اپنے ملک کے سرمایہ کاروں کے مفاد کا اظہار کرتے ہوئے مطلع کیا کہ اس شعبہ جات میں ’ آسٹریا کی کمپنیاں عالمی رہنما ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے نظریے میں یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی جغرافیائی سیاست کے پیش نظر آسٹریا ’نئے مواقعوں‘ اور ’نئی مارکیٹ‘ کی تلاش میں ہے۔
آسٹرین وزیر خارجہ نے خدشات کا اظہار کیا ہے یوکرین کی جنگ کے بعد دنیا میں ’محاز آرائی‘ مزید بڑھ جائے گی اور خبردار کیا ہے اس کے اثرات سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔
جنگ پر پاکستان کے غیر جانبدار مؤقف کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ میرا ماننا ہے کہ کوئی ملک بھی اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا‘۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’ یہ یورپی جنگ نہیں ہے، یہ اب تک یورپی جنگ کی طرح بھی نہیں ہے، اسے غلط نہ سمجھیں، یہ کچھ ایسا ہے جس کا تعلق آہ سے بھی ہے‘۔
آسٹریا سمیت یورپ کے دیگر ممالک پاکستان کے غیر جانبدار مؤقف سے ناخوش ہیں، اسلام آباد کی جانب سے تنازعے کو سفارت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا گیا ہے اور روس اور یوکرین مذاکرات کی کامیابی کی امید ظاہر کی گئی ہے۔
تاہم یورپی ممالک اس بات سے ناخوش ہیں کہ پاکستان یوکرین کے خلاف روسی ’جارحیت‘ کی مذمت کرنے سے گریز کر رہا ہے، اور جنگ ختم کرنے سے متعلق اقوام متحدہ کی قرار داد کے لیے طلب کیے گئے اجلاس میں بھی پاکستان نے شرکت نہیں کی۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی رائے سے بے حس نہیں ہے۔
انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ پاکستان افغانستان جنگ کے اثرات میں مبتلا ہے اور کہا کہ اسے میں’شہری کس طرح دوسری جانب دیکھ سکتے ہیں‘۔