دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا آنے والا دورہ چین دونوں ممالک کے اسٹرiٹیجک تعلقات کو مزید مضبوط کرے گا۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ یہ دورہ ہر طرح کے حالات میں تزویراتی تعاون کے لیے دونوں ممالک کی شراکت داری کو مزید مضبوط کرے گا اور آنے والے وقت کے لیے مشترکہ مستقبل سے متعلق پاک ۔ چین کمیونٹی روابط کو مضبوط کرنے کے مقصد کے حصول میں مدد دے گا۔
وزیر اعظم عمران خان 3 سے 5 فروری تک چین کے دورہ کریں گے، دورے کے دوران وزیر اعظم سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے اور چینی رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔
وزیر اعظم عمران خان تقریباً دو سال بعد چین کا دورہ کر رہے ہیں، اہم دورے کے دوران دونوں ممالک باہمی تعاون کے جاری منصوبوں کے ساتھ ساتھ نئے منصوبوں پر غور کریں گے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے اس موقع پر ایک بار پھر اربوں ڈالر کے انفرااسٹرکچر منصوبے پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی رفتار میں کمی کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ منصوبہ تیزی سے مکمل ہو رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران کورونا وبا کے باجود سی پیک پر کام تیزی سے جاری ہے، گزشتہ جے سی سی کا اجلاس کافی مثبت رہا اور سی پیک کے کئی منصوبے جاری ہیں۔
عاصم افتخار کا سی پیک روڈ اینڈ بیلٹ انیشیٹو کو اعلیٰ معیار کا مظہر منصوبہ قرار دیتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک منصوبے کو مزید آگے بڑھانے اور اس کی کامیابی کے لیے پرعزم ہیں۔
بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی سے متعلق سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ فی الحال اس کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے ہائی کمشنر کی واپسی بھی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب دونوں ممالک کے درمیان چیزیں مثبت سمت میں جانے لگیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں معاملات بہتر نہیں ہیں اور ہمارے خیال میں موجودہ صورتحال کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔
عاصم افتخار نے کہا کہ بھارت کو دونوں ممالک کے درمیان تعمیری مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے اپنے زیادہ تر پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے اور تعلقات کو نارمل کرنے کے مشترکہ دوستوں کے مشورے کو نظر انداز کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے بھارت نے مثبت ردعمل کا اظہار نہیں کیا بلکہ صورتحال کو خراب کیا ہے۔