کراچی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے پیر کو مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کے کیس کا فیصلہ سنایا۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے کیس میں حتمی دلائل مکمل ہونے پر 14 جنوری کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کو جنوری 2018 میں کراچی میں مبینہ طور پر پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا تھا۔
اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے پولیس مقابلے میں چار مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا، جن میں سے ایک نقیب اللہ محسود بھی تھے۔
جس کے بعد نقیب اللہ محسود کے خاندان والوں کی جانب سے کہا گیا کہ نقبیب اللہ بے گناہ تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’نقیب اللہ کراچی کام کاج کے لیے گئے تھے اور ان کا کسی شدت پسند گروہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘
واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور لوگوں نے نقیب اللہ کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے ان کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا اور سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنان نے مختلف شہروں میں ان کے قتل کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔
اس کے بعد سپریم کورٹ نے واقعے کا ازخود نوٹس لے لیا تھا اور پولیس مقابلہ کرنے والے ایس ایس پی ملیر راؤ انواز روپوش ہو گئے تھے۔ اس دوران انہوں نے اسلام آباد ایئرپورٹ سے دبئی فرار ہونے کی کوشش بھی کی تھی۔
کچھ عرصے بعد وہ خود ہی عدالت میں پیش ہو گئے تھے جہاں سے ان کو گرفتار کیا گیا، تاہم بعد ازاں وہ ضمانت پر رہا کر دیے گئے تھے۔