ناظم جوکھیو قتل کیس اے ٹی سی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے یا نہیں، فیصلہ محفوظ

کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے ناظم جوکھیو قتل کیس کے چالان سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا ہے کہ کیس اے ٹی سی میں چلایا جائے یا سیشن کورٹ میں۔

عدالت نے قتل کیس میں استغاثہ اور تفتیشی افسر کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا ہے۔

استغاثہ اور تفتیشی افسر نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ اس مقدمے کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں، لہٰذا اس مقدمے کی سماعت اے ٹی سی عدالت میں کرنے کے بجائے سیشن کورٹ میں کی جائے۔

یاد رہے کہ ناظم جوکھیو کو نومبر 2021 میں ملیر میں ایم پی اے جام اویس کے فارم ہاؤس میں قتل کیا گیا تھا۔

بعد ازاں رکن صوبائی اسمبلی، ان کے بھائی و رکن قومی اسمبلی جام کریم اور دیگر کے خلاف ناظم جوکھیو کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنانے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے ملزمان کے غیر ملکی مہمانوں کو شکار کرنے سے روکا تھا۔

جمعے کے روز ہونے والی سماعت کے دوران، اے ٹی سی عدالت نمبر 15 کے جج جو سنٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں نے اس بات پر دلائل سنے کہ اس کیس کا ٹرائل کرنا اے ٹی سی عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے یا نہیں۔

تفتیشی افسر (آئی او) انسپکٹر سراج الدین لاشاری کا کہنا تھا کہ اس کیس کا تعلق دہشت گردی کی کارروائی سے نہیں ہے، اس لیے قانون کے مطابق ٹرائل کرنے کے لیے کیس کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سیشن عدالت منتقل کیا جا سکتا ہے۔

مقتول ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیو کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ رحمٰن غوث نے بھی آئی او کے مؤقف کی حمایت کی۔

ایڈووکیٹ رحمٰن غوث کا کہنا تھا کہ کیس چونکہ دہشت گردی کے دائرے میں نہیں آتا اس لیے اسے سیشن کورٹ میں منتقل کیا جائے۔

تاہم، ایڈووکیٹ علی اصغر ناریجو جنہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ بھی مقتول کی بیوہ کی نمائندگی کر رہے ہیں انہوں نے استغاثہ کے مؤقف کی مخالفت کی۔

انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم کے خلاف جرم دہشت گردی کے معنوں میں آتا ہے اس لیے یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی قانون کے دائرے میں آتا ہے۔

انہوں نے جج پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ مقدمے کی سماعت قانون کے مطابق کریں۔

شکایت کنندہ کے وکیل ایڈووکیٹ مظہر علی جونیجو نے بھی استغاثہ کے مؤقف کی مخالفت کی۔

انہوں نے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ سفاکانہ قتل کا مقصد کمیونٹی اور متاثرہ خاندان کو خوفزدہ کرنا تھا، لہذا، ملزمان کے خلاف دہشت گردی کا جرم کرنے کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔

جج کا کہنا تھا کہ چارج شیٹ موصول ہونے پر اس عدالت کے دائرہ اختیار کو تفتیشی افسر اور پراسیکیوشن کی جانب سے چیلنج کیا گیا ہے، اس لیے میری عاجزانہ رائے ہے کہ پہلے اس کیس کے دائرہ اختیار کا فیصلہ کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں:ناظم جوکھیو قتل کیس: عدالت میں حتمی تحقیقاتی رپورٹ جمع کروادی گئی

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ محمد جبران ناصر نے عدالت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ مقدمے کی کارروائی میں شامل ہونے کے لیے ان کے مؤکل کی درخواست پر فیصلہ کرے۔

جبران ناصر نے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ این سی ایچ آر کے پاس مداخلت کار کے طور پر کیس میں شامل ہونے کا قانونی اختیار ہے۔

تاہم، جج کا کہنا تھا کہ زیر التوا درخواستوں سے متعلق فیصلہ عدالت کے دائرہ اختیار کا فیصلہ ہونے کے بعد کیا جائے گا۔

اس کے ساتھ ہی اے ٹی سی جج نے عدالت کے دائرہ اختیار سے متعلق 10 مئی کو سنایا جانے والا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں