اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیکا ترمیمی آرڈیننس چیلنج کرنے کا فیصلہ قائدِ حزب اختلاف اور صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) محمد شہباز شریف نے کیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے میڈیا، اظہار رائے کی آزادیوں کے خلاف قانون کو چیلنج کرنے کے لیے درخواست تیار کرلی ہے۔
آرڈیننس کے خلاف پاکستان مسلم لیگ (ن) کی تیار کردہ پٹیشن جلد دائر کیے جانے کا امکان ہے۔
عدالت میں درخواست مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم اورنگزیب اور سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے دائر کی جائے گی۔
مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی جانب سے پیکا ترمیمی آرڈیننس کو آئین اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا تھا۔
پیکا آرڈیننس پر شدید ردعمل
اس سے قبل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی جانب سے پیکا قانون میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جاچکا ہے۔
آج ہونے والی سماعت میں ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو پیکا ترمیمی آرڈیننس کی دفعہ 20 کے تحت گرفتاری کرنے سے روک دیا۔
صدر پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے پیکا ترمیمی آرڈیننس کو لاہور ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں چوہدری سعید ظفر ایڈووکیٹ کی دائر کردہ درخواست میں وفاقی حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا ہے۔
درخواست گزار نے اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس صحافیوں کی آواز دبانے کے لیے لایا گیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار نے بھی پیکا ترمیمی آرڈیننس 2022 کی مخالفت کی ہے اور مقامی وکیل کی جانب سے پیکا ترمیمی آرڈیننس کو چیلنج کرنے کے اقدام کی حمایت کی۔
پیکا آرڈیننس کیا ہے؟
واضح رہے کہ اتوار کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا تھا۔
پیکا ترمیمی آرڈیننس میں سیکشن 20 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے کی صورت میں قید کی سزا 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کردی گئی ہے۔
شکایت درج کرانے والا شخص متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا سرپرست ہوگا، جرم کو قابل دست اندازی قرار دے دیا گیا ہے اور یہ ناقابل ضمانت ہوگا۔
آرڈیننس کے مطابق ٹرائل کورٹ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔
اس سلسلے میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کو اگر لگے کہ مقدمہ جلد نمٹانے میں رکاوٹیں ہیں تو وہ رکاوٹیں دور کرنے کا کہے گی اور وفاقی و صوبائی حکومتیں اور افسران کو رکاوٹیں دور کرنے کا کہا جائے گا۔
آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ ہر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ایک جج اور افسران کو ان کیسز کے لیے نامزد کرے گا۔
یاد رہے کہ پیکا، 2016 میں اپوزیشن کی مخالفت کے باجود اس وقت قومی اسمبلی سے منظور ہوگیا تھا جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت تھی۔