پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین و سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ فیصلہ پاکستان کی عوام نے کرنا ہے کہ انہیں خوددار، باوقار قیادت چاہیے یا آنکھیں بند کر کے ہاں میں ہاں ملانے والے چاہئیں؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے، میں نہیں سمجھتا کہ کسی ملک کو ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کرنی چاہیے، یہاں فیصلے ہمارے آئین، قانون اور عوامی امنگوں کے مطابق ہونے چاہئیں، آج پاکستانی قوم میں جو اضطراب کی کیفیت ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم نہیں چاہتی کہ ہمارے اندرونی معاملات میں کسی قسم کی بیرونی مداخلت ہو.
پاکستان کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی کہہ رہی ہے کہ بیرونی مداخلت نامناسب ہے چنانچہ” ڈی مارش” کیا جائے، نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی ہدایت پر ہم نے دفتر خارجہ میں سفارت کار کو بلا کر “ڈی مارش” کیا اور واشنگٹن میں بھی اپنے سفیر کے ذریعے احتجاج ریکارڈ کرایا۔
ترکی پاکستان کا دوست برادر ملک ہے جس نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا، ترک وزیر خارجہ نے مجھے فون کر کے کہا کہ وہ پاکستان میں صورتحال کو بغور دیکھ رہے ہیں، وہ پاکستان کی بہتری چاہتے ہیں، اسی طرح کے بیانات چین کی جانب سے بھی آئے، آج روس نے بھی واضح بیان دیا ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ملک میں ہیجیانی کیفیت سے دوچار ہے، کل آپ نے دیکھا کہ اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، آج میں وزیر اعظم کے ہمراہ لاہور روانہ ہو رہا ہوں، لاہور کے اواری ہوٹل میں ایم پی پیز کو بند کر کے رکھا گیا ہے، اگر وہ آپ کو ووٹ دینا چاہتے ہیں تو آپ کو ان پر اعتماد ہونا چاہیے، چار/پانچ ایم پی ایز تفریح کیلئے باہر جانا چاہ رہے تھے لیکن انہیں نہیں جانے دیا گیا، یہ حبس بے جا نہیں تو کیا ہے؟
آئین کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بتائیں کہ آئین میں کہاں درج ہے کہ لوگوں کے ضمیر خریدے جائیں، کیا پیسے کے بل بوتے پر وفاداریاں تبدیل کروانا، آئینی قدم ہے؟ الیکشن کمیشن کے سامنے آج اس کیس کی سماعت ہے جس میں سینٹ میں قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی کا بیٹا، اپنے باپ کیلئے ووٹ خرید رہا ہے اور اس سارے عمل کی ویڈیو موجود ہے۔
بدقسمتی سے میڈیا میں بھی کچھ لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ کمیونیکیشن فیک ہے، اس کمیونیکیشن سے منصوب بیرونی شخصیت سے جب ہندوستان میں میڈیا کی جانب سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ تردید کیوں نہیں کرتے؟ خاموشی کیوں اختیار کرتے ہیں؟ ہندوستان، پاکستان میں ایسی حکومت کا خواہاں ہے جو ان کیلئے نرم رویہ رکھتی ہو، انہیں مفادات کا دفاع کرنے اور آزاد خارجہ پالیسی اپنانے والی حکومت کھٹکتی ہے۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ ہماری حکومت نے ہندوستان سے کہا تھا کہ ہم آپ سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں مگر کشمیریوں کا سودا ہرگز نہیں کریں گے۔