حکومتی اتحادی رہنماؤں نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کیخلاف فیصلہ آنے پر سپریم کورٹ کی کارروائی کا بائیکاٹ اعلان کر دیا۔
وزیراعظم ہاؤس میں حکمران اتحاد اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے قائدین کا مشاورتی اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف، امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ اجلاس میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم)، پاکستان مسلم لیگ (ق)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے قائدین، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) ، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے قائدین بھی شریک ہوئے۔اجلاس میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور پارٹی کے دیگر قائدین بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔
اسلام آباد میں حکومتی اتحاد کے رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایک مطالبہ کیا گیا کہ پنجاب کے وزارت اعلیٰ کے معاملے میں جو کیس اس وقت سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، تین ججوں کا بنچ نہ سے بلکہ تمام ججوں پر مشتمل کورٹ سنے۔ چونکہ تین ججوں کی ماضی میں فیصلوں کی وجہ سے ان کے ذہنی میلان کا اندازہ لگ رہا تھا کہ اس بینچ کا دیا جانے والا فیصلہ جانبدارانہ فیصلہ تصور کیا جائے گا لہٰذا فیصلے پر دونوں فریقوں کے اعتماد اور قوم کے اعتماد کو بحال اور برقرار رکھنے کےلیے ہم نے فل کورٹ کی تجویز دی تھی،
ان کا کہنا تھا آج ہمارے وکلا نے اس مؤقف کی بنیاد پر عدالت کے سامنے بھرپور طور پر آئین اور قانون کے مطابق بینچ کو مشورہ دیا لیکن بدقسمتی سے عدلیہ نے ایک غیرجانبدار کی حیثیت میں ٹھنڈے دل کے ساتھ ہمارے مطالبے پر غور کرنے اور قبول کرنے کے بجائے مسترد کر دیا، اور فیصلہ تین ججوں پر مشتمل بینچ ہی کرے گا۔ اتحادی جماعتیں واضح مؤقف دینا چاہتی ہیں کہ اگر فل کورٹ مسترد کیا جاتا ہے تو ہم بھی عدلیہ کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں اور ہم اب اس کیس کے حوالے سے اس بینچ کے سامنے پیش نہیں ہوں گے، مقدمے کا بائیکاٹ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ ملک کے سیاسی نظام میں عدلیہ کے ایسے فیصلے جس نے حکومتی نظام میں اضطراب پیدا کیا ہے، پالیسیوں کے تسلسل کو توڑا ہے جس کے نتیجے میں معاشی بحران پیدا ہوئے ہیں، یہ حکومت اب اس تسلسل کو ختم کرنا چاہتی ہے، حکومت چاہتی ہے کہ کوئی ادارہ مداخلت نہ کرے۔ ایسی کوئی مداخلت جو حکومتی عمل اور سرکار کے عمل کو متاثر کرے اس سے ہر ایک اجتناب کرے، ورنہ ہم حکومت، وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو تجویز دیں گے کہ اس حوالے سے بھی اصلاحات کے حوالے سے ازسرنو قانون سازی کی جائے کہ جس میں قوم، عدلیہ اور ان کے فیصلوں پر اعتماد کرسکے، ان کے فیصلے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کا ذریعہ بنیں اور عوام کے اعتماد کا سبب بنیں۔ ہماری توجہ اس جانب بھی مبذول ہے اور ہم آنے والے وقتوں میں ہم اصلاحات کی منزل بھی حاصل کریں گے، قوم کو آنے والے مستقبل میں نوید دیں گے، اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔
بلاول بھٹو زرداری
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارا مطالبہ فل کورٹ بنچ کا ہے، یہ مطالبہ آئین، جمہوریت اور عدالت کی بقاء کے لیے یہ مطالبہ کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج بیٹھ کر یہ اہم کیس سنیں کیونکہ اس کا تعلق پارلیمان سے ہے، سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے دائرہ کار کے حوالے سے بار بار فیصلے کررہا ہے۔ جب آپ ایک ادارے کے بارے میں فیصلے دے رہے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کا بھی پورا ادارہ بیٹھنا چاہیے اور یہ فیصلہ سنانا چاہیے، اگر فل کورٹ سماعت کرتا تو پاکستان آپ کے فیصلے کو مانتا، اس لیے فیصلہ کیا کہ جب ہمارا مطالبہ نہیں مانا جاتا تو پی ڈی ایم اور حکمران اتحاد میں شامل تمام جماعتیں وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے مقدمے میں سپریم کورٹ کی سماعت کا بائیکاٹ کریں گے۔
احسن اقبال ، شاہد خاقان عباسی
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال نے کہا کہ اب امتحان سپریم کورٹ کا ہے، یہ انصاف اورقانون کا تقاضا ہے، جب جج یا بنچ پر انگلی اٹھادی جائے تو وہ اپنے آپ کو ہٹالیں، ہم آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔ ہماری درخواست تھی یہ پارلیمان کا معاملہ ہے، ہم چاہتے تھے مخصوص بنچ کے بجائے فل کورٹ سماعت کرے، فل کورٹ اپوزیشن کا متفقہ فیصلہ ہے۔ 20اراکین اسمبلی کے زبردستی ووٹ نکال دیئے گئے، 20ووٹ نکالنے پر نظر ثانی درخواست عدالت میں موجود ہے۔ نظرثانی درخواست کا فیصلہ آئے بغیر یہ معاملہ غلط سمت میں جا رہا ہے، اگر عمران نیازی کی ہدایت محترم تھی تو چودھری شجاعت حسین کی ہدایت بھی اتنی ہی محترم ہونی چاہیے، یہ کھلا تضاد ہے۔ ایک سربراہ کی ہدایت پر 20 اراکین کو نااہل کر دیا جاتا ہے اور دوسرے سربراہ کی ہدایت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ان جج صاحبان کے فیصلے یکطرفہ ہیں، ہم نہیں چاہتے لوگ سپریم کورٹ پرانگلیاں اٹھائیں، عمران خان سیاسی شکست کھانے پرعدلیہ کواستعمال کرتے ہیں، عمران خان عدلیہ کے ذریعے اپنا سیاسی ایجنڈہ آگے بڑھاتے ہیں، ہم سپریم کورٹ کوآزاد ادارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔