وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان 3 ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کا شدید بحران ہے، اگر پانی ذخیرہ کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے سے متعلق اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو 2025 تک پاکستان میں پانی کی قلت شدت اختیار کر جائے گی۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے گزشتہ روز ایک اجلاس میں موسمیاتی تبدیلی پر ٹاسک فورس تشکیل دینے کی ہدایت جاری کی تھی، جس کے بعد وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے تنبیہ کی کہ 2025 تک پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوگا۔
شیری رحمٰن نے طرز زندگی اور لوگوں کے رویے میں تبدیلیاں اور پانی زخیرہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہے جن میں پانی کا بحران ہے اور ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک کی فہرست میں 10 ویں نمبر پر ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ایڈیشنل سیکریٹری جودت ایاز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں موجودہ ’ہیٹ ویو‘ موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے، گلیشیئرز کے بڑے ذخائر ہونے کے باوجود بھی پاکستان پانی کی قلت کے خطرے سے دوچار ہے جو کہ بہت تشویشناک بات ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی اخراج کا ایک فیصد سے بھی کم اخراج کرتا ہے لیکن دوسرے ممالک کی وجہ سے یہ دنیا میں بری طرح سے متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ مستقبل میں مزید گلیشیئرز پگھل جائیں گے یہ بات باعثِ تشویش ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ دریائے سندھ ملک کی شہ رگ ہے کیونکہ بڑے پیمانے پر زراعت کا انحصار اس پر ہے، اسے کوٹری میں پانی نچلی سطح پر آنے کے بعد خاص طور پر شدید قلت کا سامنا ہے۔
شیری رحمٰن نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہم آہنگی پر زور دیتے ہوئے شہریوں سے درخواست کی کہ وہ پانی کو احتیاط سے استعمال کریں اور اس کے ضیاع سے بچیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں عوامی بیداری پیدا کرنے کے لیے موسمیاتی مواصلات کی حکمت عملی ترتیب دے گی۔
اجلاس کے بعد اپنے ٹوئٹر پر جاری کردہ پیغام میں انہوں نے کہا کہ پانی، اگر بارشوں سے پانی کی سطح پر مدد حاصل ہوتی ہے پھر بھی غزائی حفاظت پر شدید اثر پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تناؤ کے خطرے سے دوچار ’10 سرفہرست‘ ممالک میں شامل ہے، آب و ہوا کونسل کو درحقیقت فوری ترجیحات پر سنجیدگی سے نظرثانی کے لیے ایک ٹاسک فورس سے ملاقات اور اشتراک کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اشارہ دیا کہ حکومت شاید سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے شروع کیے گئے بلین ٹری سونامی منصوبے کو بند نہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے دو منصوبے ہیں بلین ٹری سونامی اور 10 ارب درختوں کا سونامی کے نام سے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ سابقہ حکومت کو متعدد سوالیہ نشانات اور انکوائریوں کا سامنا رہا ہے، بشمول قومی احتساب بیورو کی تحقیقات مگر موجودہ حکومت اس کی شفافیت کے لیے اقدامات کرے گی۔
وزیر موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ 10 بلین ٹری سونامی جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا مشترکہ منصوبہ تھا، اس منصوبے میں سندھ حکومت کی کارکردگی 63 فیصد کے ساتھ نمایاں رہی، اس کے بعد خیبرپختونخوا حکومت 56 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
موسمیاتی تبدیلی پر ٹاسک فورس
قبل ازیں اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک ٹاسک فورس قائم کی جس کی سربراہی شیری رحمٰن کر رہی تھی اور اس میں متعلقہ وفاقی وزراء، سیکرٹریز، چیف سیکرٹریز، چیئرمین این ڈی ایم اے اور دیگر اداروں کے افسران شامل تھے۔
ٹاسک فورس موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے اور گلیشیئر پھٹنے جیسے واقعات کو روکنے کے لیے حکمت عملی تیار کرے گی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ خوراک اور پانی کی قلت کو روکنے اور پانی اور جنگلات کے تحفظ کے لیے بھی اقدامات کرے گی۔
قبل ازیں چولستان میں پانی کے مسئلے پر بریفنگ دی گئی تھی، جس کے بعد انہوں نے متاثرہ علاقوں میں فوری پانی کی فراہمی کا حکم دیا۔