ضمنی الیکشن کے نتائج آنا شروع، کہیں ن لیگ، کہیں تحریک انصاف آگے

لاہور: (آئی این این) تحریک انصاف کے منحرف اراکین کے ڈی سیٹ ہونے سے خالی ہونے والی 20 نشستوں پر ضمنی انتخاب کے لیے پولنگ کا وقت ختم ہو چکا ہے اور رزلٹ آنے کا سلسلہ جاری ہے، کہیں پر مسلم لیگ ن اور کہیں تحریک انصاف آگے ہے۔

ان 20 نشستوں میں لاہور کی 4، راولپنڈی کی ایک، خوشاب کی ایک، بھکر کی ایک، فیصل آباد کی ایک، جھنگ کی 2، شیخوپورہ کی ایک، ساہیوال میں ایک، ملتان میں ایک، لودھراں میں 2، بہاولنگر میں ایک، مظفر گڑھ میں 2، لیہ میں ایک اور ڈیرہ غازی خان کی ایک نشست شامل ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے مطابق مجموعی طور پر 45 لاکھ 79 ہزار آٹھ سو 98 رجسٹرڈ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ان 20 حلقوں میں کُل 3 ہزار 131 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے، مردانہ پولنگ اسٹیشنز کی تعداد 731، خواتین کے لیے 700 جبکہ 1700 مشترکہ پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے ہیں۔

غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج

پی پی 7 راولپنڈی:

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کرنل (ر) شبیر اعوان 556 ووٹ لیکر آگے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے راجہ صغیر احمد 476 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر ہیں۔

2018ء کے عام انتخابات میں راجہ صغیر احمد نے بطورِ آزاد امیدوار فتح حاصل کی اور بعد میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ انہوں نے ن لیگ اور پی ٹی آئی کے راجہ محمد علی اور غلام مرتضیٰ ستی کو شکست دی تھی۔

پی پی 83 خوشاب:

آزاد امیدوار ملک آصف بھاء 598 ووٹ لیکر آگے ہیں، ن لیگ کے امیر حیدر سنگھا 384 ووٹوں کیساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔

2018ء کے عام انتخابات میں آزاد امیدوار ملک غلام رسول سنگھا کامیاب ہوئے تھے اور پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے، انہوں نے مسلم لیگ ن کے امیدوار محمد آصف ملک، آزاد امیدوار ملک ظفر اللہ خان بگٹی اور تحریک انصاف کے گل اصغر خان کو زیر کیا تھا۔

پی پی 90 بھکر:

غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کے امیدوار سعید اکبر نوانی 4458 لیکر آگے جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار عرفان اللہ خان نیازی 3963 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر ہیں۔

2018ء کے جنرل الیکشن میں آزاد امیدوار سعید اکبر خان نوانی نے فتح حاصل کی اور پی ٹی آئی میں شامل ہوئے، انہوں نے ن لیگ کے عرفان اللہ خان نیازی اور پی ٹی آئی کے احسان اللہ کو شکست دی تھی۔

پی پی 97 فیصل آباد:

غیر حتمی اور غیرسرکاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار علی افضل ساہی 1063 ووٹ لیکر آگے جبکہ مسلم لیگ ن کے محمد اجمل چیمہ 746 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر ہیں۔

2018ء کے جنرل انتخابات میں انہی امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا تھا، اجمل چیمہ نے بطورِ آزاد امیدوار فتح حاصل کر کے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

پی پی 125 ، 127جھنگ:

پاکستان تحریک انصاف کے میاں اعظم چیلہ 334 ووٹ لیکر آگے جبکہ مسلم لیگ ن کے فیصل حیات جبوانہ 103 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر ہیں۔

2018ء کے جنرل انتخابات میں پی پی 125 سے آزاد امیدوار فیصل حیات جبوانہ نے فتح سمیٹی تھی اور میاں اعظم چیلہ کو شکست دی تھی جبکہ پی پی 127 سے بھی آزاد امیدوار مہر محمد اسلم بھروانہ نے مہر محمد نواز بھروانہ کو پچھاڑا تھا۔

پی پی 140 شیخوپورہ:

پاکستان مسلم لیگ ن کے میاں خالد محمود 1603 ووٹ لیکر آگے جبکہ پی ٹی آئی کے خرم شہزاد ورک 1509 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر ہیں۔

2018ء کے جنرل الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار میاں خالد محمود نے مسلم لیگ ن کے امیدوار یاسر اقبال کو شکست دی تھی۔

پی پی 158لاہور

تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار میاں اکرم عثمان 135 ووٹوں سے آگے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے رانا احسن شرافت 57 ووٹوں کیساتھ دوسرے نمبر پرہیں۔

پی پی 167لاہور

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار شبیر احمد گجر 82 ووٹ لیکر پہلے جبکہ ن لیگ کے نذیر احمد چوہان 25 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر ہیں۔

پی پی 168لاہور

پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار اسد کھوکھر 1004 ووٹ لیکر آگے ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے محمد نواز اعوان 310 ووٹوں کیساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔

پی پی 170 لاہور

پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ظہیر عباس کھوکھر 234 ووٹ لیکر آگے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے محمد ذوالقرنین 95 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر ہیں۔

2018ء میں صوبائی دارالحکومت لاہور کے چار حلقوں میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کا جوڑ پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں سے پڑے گا۔ چاروں حلقوں میں پی ٹی آئی نے فتح حاصل کی تھی، تاہم حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی پاداش میں تمام امیدوار ڈی سیٹ ہو گئے ہیں۔

پی پی 202 چیچہ وطنی

مسلم لیگ ن کے ملک نعمان لنگڑیال 4421 ووٹ لیکر آگے جبکہ تحریک انصاف کے میجر (ر) غلام سرور 3812 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر ہیں۔

2018ء کے جنرل الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ملک نعمان لنگڑیال نے ن لیگ کے شاہد منیر کو 13 ہزار کی ووٹوں سے شکست دی تھی۔

پی پی 217 ملتان

پاکستان مسلم لیگ ن کے محمد سلمان نعیم 3799 ووٹ لیکر آگے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے زین قریشی 3669 ووٹ لکیر دوسرے نمبر پر ہیں۔

2018ء کے جنرل الیکشن میں بطورِ آزاد امیدوار محمد سلمان نعیم نے پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئر مین شاہ محمود قریشی کو شکست دی تھی اور جہانگیر ترین کے توسط سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکن تھے تاہم ان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا جس کے باعث یہ آزاد امیدوار میدان میں اُترے تھے۔

پی پی 224، 228 لودھراں:

پی پی 224 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے زوار حسین وڑائچ 3639 ووٹ لیکر پہلے جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے عامر اقبال شاہ 3072 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر ہیں۔

پی پی 228 میں آزاد امیدوار رفیع الدین بخاری 1698 ووٹ لیکر پہلے جبکہ ن لیگ کے نذیر احمد خان 1607 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر ہیں۔

2018ء کے جنرل الیکشن میں دونوں حلقوں زوار حسین وڑائچ نے ن لیگ کے رہنما محمد عامر اقبال شاہ اور نذیر احمد خان نے مسلم لیگ ن کے سیّد محمد رفیع الدین بخاری کو پچھاڑا تھا، پی ٹی آئی کے دونوں فاتح امیدوار اب ضمنی الیکشن میں ن لیگ کے پلیٹ فارم سے حصہ لے رہے ہیں۔

پی پی 237 بہاولنگر:

مسلم لیگ ن کے امیدوار فدا حسین وٹو 1813 ووٹ لیکر آگے جبکہ پی ٹی آئی کے سیّد آفتاب رضا 1526 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر ہیں۔

2018ء کے جنرل الیکشن میں آزاد امیدوار فدا حسین نے پاکستان تحریک انصاف کے محمد طارق عثمان کو شکست دی تھی، اور بعد میں جہانگیر ترین خان کے توسط سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔

پی پی 272، 273 مظفر گڑھ:

پی پی 272 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے معظم علی جتوئی 1376 ووٹ لیکر آگے جبکہ مسلم لیگ ن کی زہرہ باسط بخاری 1228 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر ہیں۔

پی پی 273 میں ن لیگ کے محمد سبطین رضا 2735 ووٹ لیکر آگے جبکہ پی ٹی آئی کے یاسر عرفات جتوئی 2341 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر ہیں۔

2018ء کے بائی الیکشن کے دوران زہرہ بتول نے کامیابی حاصل کی تھی، انہوں نے آزاد امیدوار سیّد ہارون احمد بخاری کو ہرایا تھا جبکہ پی پی 273 میں پاکستان تحریک انصاف کے سبطین رضا بخاری نے آزاد امیدوار رسول بخش کو پچھاڑا تھا۔

پی پی 282 لیہ:

مسلم لیگ ن کے لالہ طاہر رندھاوا 2514 ووٹ لیکر آگے جبکہ پی ٹی آئی کے قیصر عباس مگسی 1683 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر ہے۔

2018ء کے الیکشن میں آزاد امیدوار لالہ طاہر رندھاوا نے پی ٹی آئی کے قیصر عباس خان کو شکست دیکر فتح حاصل کی تھی۔

پی پی 288 ڈی جی خان :

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیف الدین کھوسہ 2034 ووٹ لیکر آگے جبکہ مسلم لیگ ن کے عبدالقادر کھوسہ 1762 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر ہیں۔

تحریکِ انصاف نے اس حلقے میں جس کو اپنا امیدوار چنا ہے وہ بھی محسن عطا کھوسہ کے کزن ہیں۔ سردار سیف الدین کھوسہ نے 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی ہی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے لیے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔

وہ ایک طویل عرصے تک پاکستان مسلم لیگ ن کے دیرینہ رہنما رہنے والے سابق سینیٹر سردار ذولفقار خان کھوسہ کے صاحبزادے ہیں۔ 2018 سے قبل وہ خود بھی ایک طویل عرصے تک ن لیگ کے ساتھ منسلک رہے ہیں اور کئی مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔

2018ء کے جنرل الیکشن کے دوران اس حلقے میں محسن عطاء خان کھوسہ نے بطورِ آزاد امیدوار کامیابی حاصل کی تھی اور پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

لڑائی جھگڑے

پنجاب میں ضمنی الیکشن کے دوران لڑائی جھگڑے کے واقعات پیش آئے، مخالفین نے ایک دوسرے پر ڈنڈے سوٹوں سے حملے کئے، پولیس کو منتشر کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ کرنا پڑی۔

پنجاب میں ضمنی انتخابات کے دوران کہیں لڑائی جھگڑا تو کہیں تصادم، کسی کا سر پھٹا تو کوئی شکایت کرتا دکھائی دیا۔ لاہور کے حلقہ پی پی 168 اعوان مارکیٹ پولنگ سٹیشن 50 اور 51 میں بدنظمی دیکھی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے ووٹرز آمنے سامنے آئے۔ نعرے بازی ہوئی ،ایک دوسرے پر الزامات بھی لگائے۔

پی پی 158 میں یوسی دھرم پورہ پولنگ اسٹیشن میں اندر جانے پر پی ٹی آئی اور ن لیگ کے کارکن آمنے سامنے آئے۔ پی پی 158 میں ہی جھگڑے کے دوران ن لیگ کے کارکن کا سر پھٹ گیا ، زخمی کارکن نے الزام عائد کیا کہ جمشید اقبال چیمہ کے کہنے پر اُسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت کا پی ٹی آئی رہنما جمشید اقبال چیمہ کو گرفتار کرنے کا فیصلہ

واقعہ رپورٹ ہوا تو عطا تارڑ نے نوٹس لیا ، کہا کسی کو پرامن ماحول خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پی پی 97 فیصل آباد کے پولنگ اسٹیشن 80 کے باہر سے ایک شخص کو خوف و ہراس پھیلانے پر حراست میں لے لیا گیا۔

ڈیرہ غازی خان کے حلقہ پی پی 288 میں ووٹرز گتھم گتھا ہو گئے، ڈنڈوں کے ساتھ ایک دوسرے پر حملے کئے۔ جھنگ میں اٹھارہ ہزار ی میں پی ٹی آئی اور ن لیگ کے کارکن آمنے سامنے آئے ،کچھ وقت کیلئے الیکشن کا عمل بند بھی ہوا تاہم پولیس کی ہوائی فائرنگ کے بعد کارکن منتشر ہو گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں