صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف جسٹس عمرعطابندیال کے نام خط میں زور دیا ہے کہ ‘حکومت تبدیلی کی سازش’ کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دے دیں۔
صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف جسٹس کو خط پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے دو ہفتے پہلے لکھے گئے اسی طرح کے ایک خط کے بعد لکھا گیا ہے۔
ایوان صدر سے جاری بیان کے مطابق صدرمملکت نے خط میں کہا کہ مبینہ حکومت تبدیلی کی سازش کی تحقیقات اور سماعت کے لیے عدالتی کمیشن کی سربراہی ترجیحی طور پر چیف جسٹس کو خود کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی تاریخ میں سازشوں کے ذریعے حکومت تبدیلی کی کارروائیوں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، اس طرح کی سازشوں کی بعد میں خفیہ دستاویزات عام کیے جانے پر تصدیق ہوئی۔
انہوں نے لکھا کہ ملک میں ایک سنگین سیاسی بحران منڈلا رہا ہے، ملک کو سیاسی و معاشی بحران سے بچانے اور صورت حال مزید بگڑنے سے روکنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعات کے تناظر میں پاکستان کے عوام میں بڑی سیاسی تفریق پیدا ہورہی ہے، تمام اداروں کا فرض ہے کہ ملک کو مزید نقصان اور بگاڑ سے بچانے کے لیے بھرپور کوششیں کریں۔
صدر مملکت نے کہا کہ افسوس کہ تبصرے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیے جا رہے ہیں، غلط فہمیاں بڑھ رہی ہیں، مواقع ضائع ہو رہے ہیں، کنفیوژن پھیل رہی ہے، معیشت بھی بحران میں ہے۔
چیف جسٹس کو خط میں انہوں نے لکھا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قومی سلامتی، سالمیت، خودمختاری اور مفاد عامہ کے معاملات میں عدالتی کمیشن تشکیل دیا۔
انہوں نے کہا کہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی انکوائری چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن نے کی، میموگیٹ معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے لیے ایک فعال جوڈیشل کمیشن موجود ہے، سربراہی سپریم کورٹ کے جج کررہے ہیں۔
صدر مملکت نے کہا کہ رپورٹس کے مطابق وزیراعظم نے بھی کمیشن کے قیام کی خواہش کا اظہار کیا، قوم سپریم کورٹ کا احترام کرتی ہے، اپنی توقعات پر پورا اترنے کی امید کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن کو معاملے کی تحقیقات قانون کی تیکنیکی بنیادوں پر نہیں بلکہ انصاف کی اصل روح کے مطابق کرنی چاہیے، یہ ہمارے ملک کی بہت بڑی خدمت ہو گی، پاکستانی عوام قومی اہمیت کے معاملے پر وضاحت کے مستحق ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میری رائے ہے کہ ریکارڈ شدہ حالات و واقعات پر مبنی شواہد نتائج کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
صدر مملکت نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ درخواست ہے کہ جوڈیشل کمیشن مبینہ سازش کے معاملے کی مکمل تحقیقات کرے۔
کیبل گیٹ
قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے برطرف کیے جانے کے بعد سے عمران خان نے شہباز شریف حکومت کو ‘امپورٹڈ’ قرار دیتے ہوئے نامنظور کیا ہے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد غیر ملکی سازش کا حصہ ہے، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے ان کے خلاف باضابطہ طور پر تحریک عدم اعتماد دائر کرنے سے ایک دن قبل 7 مارچ کو سفیر سے موصول ہونے والی کیبل اس سازش کا ثبوت ہے۔
مراسلے کا معاملہ پہلی بار عمران خان نے 27 مارچ کو ایک عوامی ریلی میں عوامی سطح پر اٹھایا تھا۔
یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں آج قوم کے سامنے پاکستان کی آزادی کا مقدمہ رکھ رہا ہوں، میں الزامات نہیں لگا رہا، میرے پاس جو خط ہے، یہ ثبوت ہے اور میں آج یہ سب کے سامنے کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی شک کر رہا ہے، میں ان کو دعوت دوں گا کہ آف دا ریکارڈ بات کریں گے اور آپ خود دیکھ سکیں گے کہ میں کس قسم کی بات کر رہا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ سب کے سامنے دل کھول کر کہہ رہا ہوں، بیرونی سازش پر ایسی کئی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر اور بہت جلد سامنے لائی جائیں گی، قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ یہ لندن میں بیٹھا ہوا کس کس سے ملتا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردار کس کے کہنے کے اوپر چل رہے ہیں۔
تاہم وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر اپنی جیب سے خط نکالا، عوام کے سامنے لہرایا اور پڑھے بغیر واپس رکھ لیا تھا۔
حیرت انگیز طور پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کسی بھی خط کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
31 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس (جس کی صدارت خود عمران نے کی تھی) کے بعد ایک بیان میں لفظ ‘سازش’ کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن ‘واضح مداخلت’ کا اعتراف کیا گیا، جس کے بعد ملک میں ایک مضبوط ڈیمارچ بھیجا جائے گا جس کا نام نہیں لیا گیا تھا۔
اس کے بعد سے عمران خان نے کئی عوامی خطابات میں انہیں اقتدار سے ہٹانے کی مبینہ سازش کا ذکلر کرتے ہوئے اس مراسلے کا حوالہ دیا۔
اپنے ایک خطاب میں عمران خان نے کہا کہ مراسلے میں پاکستانی سفیر اور امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا امور ڈونلڈ لو کے ساتھ ملاقات کی تفصیلات موجود ہیں جس میں مؤخر الذکر نے مبینہ طور پر پاکستان کو دھمکی دی تھی۔
14 اپریل کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ شامل نہیں ہے۔
بعدازاں 22 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا 38واں اجلاس ہوا، اجلاس میں امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر اسد مجید نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر بریفنگ دی جس کے دوران بتایا گیا عمران خان کی حکومت کو ہٹانے میں کوئی غیر ملکی سازش ثابت نہیں ہوئی۔