اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی جانب سے اتوار کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے آج قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے تاہم اراکین اسمبلی کی جانب سے اجتماعی استعفوں کے فیصلے پر پی ٹی آئی تقسیم نظر آتی ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ادھر کابینہ ڈویژن نے سابق حکومت کے خلاف مشترکہ اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد پر تاریخی ووٹنگ کے بعد وفاقی کابینہ کے 52 ارکان بشمول 25 وفاقی وزرا، چار وزرائے مملکت، وزیراعظم کے چار مشیر اور وزیراعظم کے 19 معاونین خصوصی کو ڈی نوٹیفائی کر دیا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے کے امکانات روشن ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ نئی کابینہ تمام اتحادیوں سے مشاورت کے بعد ہی تشکیل دی جائے گی۔
پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اتوار کے روز عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں اس حوالے سے فیصلہ نہ کر سکی کہ آیا اراکین اسمبلی کے بڑے پیمانے پر استعفے دیے جائیں یا نہیں، پارٹی چیئرمین نے حتمی فیصلہ کرنے کے لیے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس پیر کو دوپہر 12 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں بلایا ہے۔
اب شاہ محمود قریشی وزارت عظمیٰ کے لیے الیکشن لڑیں گے یا پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کے دیگر اراکین قومی اسمبلی کے ساتھ مستعفی ہوں گے، اس کا انحصار پی ٹی آئی کے پارلیمانی اجلاس کے نتائج پر ہے۔
تاہم پی ٹی آئی نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ میں مقابلہ جیت جاتی ہے تو سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے آئندہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے گا جہاں قائد ایوان کے انتخاب کے لیے ووٹنگ آج دوپہر 2 بجے شروع ہو گی۔
دوسری جانب نواز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی قیادت سے ملاقات کی اور سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، نئی کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے تمام جماعتوں نے اپنے اپنے عزائم مخفی رکھے ہوئے ہیں تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر قومی اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے کے لیے مضبوط ترین امیدوار ہیں، مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں مریم اورنگزیب اور رانا ثناء اللہ کو بالترتیب وزیر اطلاعات اور وزارت داخلہ کے قلمدان مل سکتے ہیں۔
کاغذات نامزدگی منظور
گزشتہ روز مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئے جب شہباز شریف اور شاہ محمود قریشی دونوں جماعتوں کے سینئر رہنماؤں پر مشتمل الگ الگ گروپس میں پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے اور اپنے کاغذات نامزدگی سیکریٹری قومی اسمبلی کو جمع کرائے۔
اس موقع پر شاہ محمود قریشی اور بابر اعوان مسلم لیگ(ن) کے رہنما زاہد حامد اور عطا تارڑ کی لفظی جھڑپ ہوئی۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں نے شہباز شریف کے خلاف اعتراضات جمع کرائے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ مؤخر الذکر ایک ایسے دن الیکشن لڑ رہے ہیں جب ان پر منی لانڈرنگ کیس میں متوقع طور پر فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے، ان کی رائے تھی کہ وہ بدعنوانی کے مقدمات میں ’ملوث ہونے‘ کی وجہ سے نئے وزیر اعظم بننے کے لائق نہیں ہیں۔
ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے عطا تارڑ نے کہا کہ چونکہ شہباز شریف کسی بھی مقدمے میں سزا یافتہ نہیں ہیں، اس لیے ان کی نامزدگی کو محض الزامات کی بنیاد پر مسترد نہیں کیا جا سکتا، زاہد حامد نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو یاد دلایا کہ نامزدگی صرف ان بنیادوں پر مسترد کی جا سکتی ہے جس کا ذکر قومی اسمبلی کے آئین اور قواعد و ضوابط اور رولز آف بزنس 2007 میں کیا گیا ہے جس کے تحت وزیر اعظم کے عہدے کے لیے امیدوار کا مسلمان، ایم این اے اور اس کے مستند دستخط ہونا ضروری ہے جبکہ اس کے تجویز کنندہ اور حمایتی کے حقیقی دستخط ہونے چاہئیں۔
اس پر سیکریٹری قومی اسمبلی نے شہباز شریف اور شاہ محمود قریشی دونوں کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے۔
بعد ازاں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے قومی اسمبلی کے اجلاس کا ایجنڈا جاری کر دیا جس کے تحت وزیراعظم کا انتخاب دوپہر 2 بجے ہوگا۔
استعفوں پر پی ٹی آئی تقسیم
دریں اثنا ایک اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی رہنما رجسٹریشن کے معاملے پر منقسم ہیں کیونکہ ان میں سے کچھ کا خیال ہے کہ پارٹی کے تمام اراکین قومی اسمبلی اور اتحادیوں کو آنے والی حکومت کو مشکل صورتحال سے دوچار کرنے کے لیے فوری طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے، جبکہ دیگر کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کو اگلے عام انتخابات کے لیے انتخابی قوانین خصوصاً الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال اور سمندر پار پاکستانیوں کے حق رائے دہی کے حوالے سے کسی بھی کوشش کی مزاحمت کے لیے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنا چاہیے۔
تاہم، پی ٹی آئی کے ناراض رہنما راجا ریاض نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی نے استفے دینے کا انتخاب کیا تو 22 ناراض اراکین استعفیٰ نہیں دیں گے، خیال کیا جاتا ہے کہ اگر انہوں نے شاہ محمود قریشی کے خلاف ووٹ دیا تو آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت انہیں نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے منحرف افراد صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور جو بھی فیصلہ کریں گے اس کے بارے میں قانونی رائے لے رہے ہیں، تاہم ان کے ووٹنگ سے اجتناب اور ووٹ کے دن غیر حاضر رہنے میں فرق ہے، انہوں نے پی ٹی آئی کی سابق رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ماضی میں ووٹنگ سیشن میں شرکت نہ کرنے والے منحرف اراکین قومی اسمبلی کو معاف کر دیا تھا۔
شہباز شریف کی پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کے رہنماؤں سے ملاقاتیں
بعدازاں ایک اہم پیشرفت میں شہباز شریف نے سابق صدر آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی اور تیزی سے بدلتے سیاسی منظر نامے پر تبادلہ خیال کیا۔
مسلم لیگ(ن) کے صدر نے اس کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے بھی ملاقات کی اور ان کی حمایت پر شکریہ ادا کیا۔
زرداری ہاؤس کے دورے کے دوران شہباز شریف نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یقینی بنانے کی کوششوں پر سابق صدر آصف زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے مفاد عامہ کے حامل تمام مسائل پر مل کر کام کرنے کا عہد کیا۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے خطے میں امن اور ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ پُرامن تعلقات کی خواہش کی۔
جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ ان کے بڑے بھائی اور خود ساختہ جلاوطن سابق وزیر اعظم نواز شریف کے مقدمات واپس لے لیے جائیں گے تو انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے مقدمات قانون کے مطابق نمٹائے جائیں گے۔
اس موقع پر شہباز شریف کے ہمراہ سعد رفیق، ایاز صادق اور مریم اورنگزیب بھی موجود تھیں جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی اور شازیہ عطا مری بھی ساتھ تھے۔