وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف دائر منی لانڈرنگ کے کیس کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹر ٹوئٹر پر جاری ایک وضاحتی بیان میں ایف آئی اے کے ترجمان نےکہا کہ ‘میڈیا میں ایک جعلی خبر چل رہی ہے کہ لاہور میں ایک سیاسی جماعت کے رہنماؤں کے خلاف کیس واپس لیا، ایف آئی اے مقدمہ درج کرچکا ہے’۔
بیان میں کہا گیا کہ ‘مقدمہ واپس نہیں لیا گیا، عدالت میں سماعت جاری ہے، اگلی سمات 15 مئی 2022 کو ہے’۔
ایف آئی اے نے بتایا کہ ‘یہ ایک جعلی خبر ہے، ایف آئی اے یہ جعلی خبر پھیلانے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتی ہے’۔
وضاحتی بیان میں بتایا گیا کہ ‘درحقیقت 11 اپریل 2022 کو کیس کے پراسیکیوٹر نے عدالت میں پراسیکیوٹر کی تبدیلی سے متعلق رائے پر مبنی درخواست جمع کرائی تھی کہ جہاں انہیں پراسیکیوشن کی طرف سے پیش نہ ہونے کی ہدایت کی گئی تھی’۔
پراسیکیوٹر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘انہوں نے اس وقت کے ڈی جی ایف آئی اور تفتیشی افسر کے توسط سے درخواست دی تھی، انہیں نے مبینہ طور پر کہا گیا تھا کہ بطور پراسیکیوٹر پیش نہ ہوں، یہ کیس واپس لینے کی درخواست کسی صورت نہیں تھی’۔
وفاقی ادارے نے بتایا کہ ’11 اپریل کو اس وقت ڈی جی ایف آئی اے ثنااللہ عباسی تھے اور درخواست جمع کرتے وقت نئے وزیراعظم نے حلف نہیں لیا تھا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘طاہر رائے کو 22 اپریل 2022 کو ڈی جی ایف آئی اے تعینات کیا گیا، یہ معاملے ان کے ایف آئی اے میں آنے سے پہلے کا ہے’۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘پراسیکیوٹر کی تبدیلی کا معاملہ گزشتہ حکومت کے دور میں بھی معمول کا حصہ تھا، اس کیس میں کئی بار پراسیکیوٹر تبدیل کیا گیا’۔
وفاقی ادارے نے درخواست کرتے ہوئے بیان میں کہا کہ اس معاملے میں جعلی خبریں مت پھیلائیں۔
قبل ازیں رپورٹس آئی تھیں کہ لاہور کی خصوصی عدالت کی جانب سے 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کیس میں وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف فرد جرم عائد ہونے سے 3 روز قبل وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خلاف ٹرائل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نے عدالت میں جمع کرائی گئی تحریری درخواست میں تفتیشی افسر کے توسط سے اسپیشل پراسیکیوٹر سکندر ذوالقرنین سلیم سے کہا کہ وہ عدالت میں پیش نہ ہوں کیونکہ اس مقدمے کے ملزمان پاکستان کے وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں۔
منی لانڈرنگ کیس
شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو شوگر اسکینڈل میں منی لانڈرنگ کے کیس کا سامنا ہے، ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ، کرپشن کی روک تھام ایکٹ اور انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو ان کی آمدنی کے نامعلوم ذرائع سے مال جمع کرنے میں مدد دی۔
ایف آئی اے نے 13 دسمبر 2021 کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کے خلاف 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ عدالت میں جمع کروایا تھا اور دنوں کو مرکزی ملزم نامزد کر دیا تھا۔
ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرایے گئے 7 والیمز کا چالان 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں 100 گواہوں کی لسٹ بھی جمع کرا دی تھی اور کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف 100 گواہ پیش ہوں گے۔
چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جو 2008 سے 2018 تک شہباز شریف فیملی کے چپراسیوں، کلرکوں کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے۔
ایف آئی اے کے مطابق 28 بے نامی اکاؤنٹس میں 16 ارب روپے، 17 ہزار سے زیادہ کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا اور ان اکاؤنٹس میں بھاری رقم چھپائی گئی جو شوگر کے کاروبار سے مکمل طور پر غیر متعلق ہیں اور اس میں وہ رقم شامل ہے جو ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو نذرانہ کی گئی۔
چالان میں کہا گیا کہ اس سے قبل شہباز شریف (وزیر اعلیٰ پنجاب 1998) 50 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں براہ راست ملوث تھے، انہوں نے بیرون ملک ترسیلات (جعلی ٹی ٹی) کا انتظام بحرین کی ایک خاتون صادقہ سید کے نام اس وقت کے وفاقی وزیر اسحٰق ڈار کی مدد سے کیا۔
ایف آئی اے نے کہا تھا کہ ’یہ چالان شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو مرکزی ملزم ٹھہراتا ہے جبکہ 14 بے نامی کھاتے دار اور 6 سہولت کاروں کو معاونت جرم کی بنیاد پر شریک ملزم ٹھہراتا ہے۔
چالان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی 2008 سے 2018 عوامی عہدوں پر براجمان رہے تھے۔