پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سیاسی طور پر ایک دوسرے کی ضد ہیں لہٰذا اگر کوئی اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ یہ مستقل اتحاد کسی جمہوری اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوا ہے تو ذرا انتظار کر لیں تاریخی طور پر ’’ہنی مون‘‘ کی میعاد ہفتوں اور مہینوں رہتی ہے، عین ممکن ہےیہ ذرا طویل ہو جائے کیونکہ ضامن کی ضرورت ہے ان کا ساتھ رہنا، شاید اسی لیے پی پی پی نے حکومت کا حصہ نہ ہونے کے باوجود اب تک بہت کچھ حاصل کر لیا ہے اور مسلم لیگ (ن) نےوزارت عظمیٰ حاصل کر کے بھی بہت کچھ گنوا دیا ہے۔
ویسے بھی اس نئے دور کا آغاز سیاسی مخالفین کی گرفتاریوں سے ہی ہوا ہے۔ ایک طرف تقریب حلف برداری ہو رہی تھی تو دوسری طرف لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنمائوں کی گرفتاری۔ امید تو یہ تھی کہ وزیر اعظم، سیاسی قیدیوں کی رہائی کا حکم دیں گے ۔ صحافی اسد طور اور عمران ریاض کی رہائی ممکن بنائی جائیگی مگر خیر، جو منصف خود ہی قید میں ہیں انصاف کیا دیں گے۔
پچھلے ہفتوں میں ہماری سیاست میں چند بڑے واقعات ہوئے ہیں۔8فروری 2024کو ووٹرز نے ووٹ کو عزت بھی دی اور جمہوریت کے بہترین انتقام کے فلسفہ کو بھی سچ کر دکھایاتاہم بات اگر صرف بیلٹ باکس تک رہتی تو نتائج یقینی طور پر مختلف ہوتے مگر ہمارے یہاں کا مسئلہ برسہا برس سے سلیکٹرز سے سلیکٹڈ تک میں پھنس کر رہ گیا ہے اور آج تک ہم پارلیمان کو آزاد نہیں کرا پائے تو سیاسی قیدیوں کو کہاں سے رہا کروا پائیں گے۔
اب تو ایسا لگتا ہے جیسے سابق صدر عارف علوی بھی رہا ہو کر کراچی پہنچے ہیں اور اڈیالہ جیل جانے کی تیاری کر رہے ہیں…. اس وقت تو اپنے لیڈر بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملے مگر جس طرح کا جذباتی بیان انہوں نے نئے صدر آصف علی زرداری کی تقریب حلف برداری کے بعد واپس اپنے شہر پہنچ کر دیا ہے اس سے لگتا نہیں کہ وہ کسی آرام کے موڈ میں ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے اس تیسرے ہنی مون کی۔ 2006کا میثاق جمہوریت ڈرافٹ کی حد تک سب سے زیادہ موثر معاہدہ تھا جو اگر اپنی اصل شکل میں قائم رہتا تو آج صورت حال بہت مختلف ہوتی۔ بدقسمتی سے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت نے بہت بڑاسیاسی خلا پیدا کر دیا ۔
اس میثاق کی بنیاد غلطیوں کے اعتراف پر تھی اور آگے بڑھنے کا راستہ ماضی سے سبق سیکھنے پر تھا مگر ان دونوں نے بار بار وہی غلطیاں دہرائیں اور شاید ایک بار پھر دونوں ہی نے2022سے تیسرے کاندھے پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے کا فیصلہ کیا تاکہ دونوں کا مشترکہ مخالف عمران خان اس گمان میں رہے کہ اس کی کرسی مضبوط ہے اور عدم اعتماد کی تحریک کو شکست ہو جائے گی۔ یہی غلط فہمی سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی تھی۔
یہ اتحاد شاید اس وجہ سے بھی 2008کے مقابلے میں زیادہ چلے کیونکہ ماضی کے مقابلے میں کم از کم مسلم لیگ (ن) خاصی کمزور پوزیشن پر ہے مرکز اور پنجاب میں حکومتوں کے ہونے کے باوجودوہ کسی بھی طرح نظام کا ڈی ریل ہونا برداشت نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اس وقت اگر کوئی ڈرائیونگ سیٹ پر ہے تو وہ سابق صدر آصف علی زرداری اور پی پی پی، دوسری بڑی وجہ اس اتحادی حکومت کے چلنے کی تیسرا فریق ہے اور وہ بہرحال اس وقت تک اس گاڑی کو چلائے گا جب تک اس کے اور بانی پی ٹی آئی کے معاملات میں لچک نہیں آتی اور اگر آگے چل کر کوئی بریک تھروہو جاتا ہے تو سو فی صد خسارے میں مسلم لیگ اور شریف برادران ہونگے زرداری صاحب اور پی پی پی نہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ پی پی پی موجودہ حکومت کی حمایت کر رہی ہے مگر اس کا حصہ بننے کو تیار نہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی تمام تر کوششوں کے باوجود کیا وجہ ہے کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے حکومت میں شمولیت سے معذرت کر لی ہے اور مضبوط آئینی عہدے حاصل کر لیےہیں ۔
ان تینوں فریقوں کا مشترکہ مفاد وہ ہے جو اڈیالہ میں ہے ،جو اس وقت بھی سیاست کا مرکز ہے اور سارا منظر نامہ اسی کے گرد گھوم رہا ہے۔ ایک سبق بظاہر تحریک انصاف نے یہ ضرور سیکھا ہے کہ سسٹم سے باہر نہیں رہنا یعنی اس وقت وہ پارلیمان اور اسمبلیوں کا حصہ بھی ہیں۔ ایک صوبہ میں حکومت بھی کر رہے ہیں اور ایوانوں کے اندر اور باہر دھاندلی کے خلاف احتجاج بھی۔ آج تو عارف علوی بھی یہ بات کر رہے ہیں کہ اسمبلیوں سے باہر آنا سیاسی غلطی تھی۔ ایک بات طے ہے کہ موجودہ حکومت کا مستقبل بانی پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل سے وابستہ ہے۔ لہٰذا ماضی کے مقابلے میں مسلم لیگ اور پی پی پی کا خاص طور پر شریفوں کا طاقتور اداروں کےساتھ ٹکرائو ممکن نہیں۔
الیکشن 2024میں ووٹ بظاہر صرف پی ٹی آئی اور بانی کے حق میں نہیں پڑا ،وہ ریاستی بیانیہ کے خلاف بھی ووٹ تصور کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا ابھی تو یہ ہنی مون جلد ختم ہونے والا نہیں یہ کمپنی ابھی چلے گی۔ مسلم لیگ (ن) کیلئے اس الیکشن میں سوچنے کیلئے بہت کچھ ہے۔ نواز شریف صاحب کا تین ، ساڑھے تین سال ملک سے باہررہنا اور پھر شہباز شریف کی 16ماہ کی حکومت نے ان کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا توڑ محض اچھی گورننس نہیں اچھی سیاست بھی ہے۔ یہ 2008 نہیں جب پی پی پی سے معاہدہ چند ماہ میں ٹوٹ گیا، آپ حکومت سے نکل آئے، 2009 میں ججوں کی بحالی کیلئے لانگ مارچ کیا۔
پی پی پی حکومت نے گورنر راج لگایا عدالت نے ختم کرایا اور جنرل کیانی کی گارنٹی پر سابق چیف جسٹس بحال ہوئے پھر حکومت مرکز میں پی پی پی کی اور پنجاب میں مسلم لیگ کی چلتی رہی یہاں تک کے 2013 آ گیا اور اس ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ نے جنم دیا ایک تیسرے سیاسی فریق کو جو 2008 کے الیکشن میں بائیکاٹ کی وجہ سے نہیں تھا۔ وہ تیسرا آپشن عمران خان تھا۔ ان کی خاموش حمایت اس وقت اداروں کے طاقتور لوگوں نے کی۔ اب میں یہ بات کروں تو سمجھ میں آتی ہے کم از کم شریفوں کو یہ پروجیکٹ عمران والی بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس کیلئے آپ کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ آپ کسی کا پروجیکٹ نہیں رہے جو ظاہر ہے حقیقت پر مبنی نہیں ہوگا۔ تو اس وقت تک ہنی مون کو انجوائے کریں ویسے بھی ہماری سیاست، مدت سے عدت تک آ گئی ہے۔
Load/Hide Comments